کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 584
علينافقال الناس قدطيبناذلك يارسول اللّٰه.)) [1] عروہ بیان کرتےہیں بےشک مسوربن مخرمہ اورمروان بن حکم نے انھیں خبردی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ ہوازن کاوفدمسلمان ہوکرحاضرہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں میں (خطاب کیا)اللہ کی شان کےمطابق اس کی حمدوثنابیان کی، پھرفرمایا:امابعد! یہ تمہارےبھائی توبہ کرکےمسلمان ہوکرتمھارےپاس آئے ہیں اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ میں ان کاحصہ(قیدی اورمال ودولت)واپس کردوں۔ اب جوشخص خوشی کے ساتھ ایساکرناچاہے وہ کرےاورجوشخص چاہتا ہے کہ اس کا حصہ باقی رہےیہاں تک کہ جب اس کو (قیمت کی شکل)میں اس وقت واپس کردیں جب اللہ تعالیٰ سب سےپہلامال غنیمت کہیں سےدلادے۔ لوگوں نے کہاکہ ہم بخوشی دل سےاس کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘ اس میں سےبھی ثابت ہوتا ہے کہ قبضہ شرط نہیں ہے اگرقبضہ شرط ہوتاتوان صحابہ نےقبضہ میں نہیں لیاتھا، پھرواپس کیسےکردیا۔ جس سےثابت ہوتا ہے کہ قبضہ شرط نہیں ہےاسی طرح الروضۃ الندیہ ص165میں ہے:"ولاحجة لمن اشترط القبض في الهبة." هذاهوعندي والعلم عندربي سوال:کیافرماتےہیں علماءدین اس مسئلہ میں کہ حاجی عبداللہ منشی غلام محمدمیں سےہرایک کواپنی اپنی کپاس کی رقم کاچیک سیٹھ عبدالشکورکی طرف سےملادونوں چیک لےکربینک میں آئےاور۔ /18000روپےلیےاورغلام محمدمصطفیٰ نے اورحاجی عبداللہ نے۔ /1000ایک ہزارروپے لیے۔ منشی غلام محمد کے پاس کھلےپیسےتھےجواس نے ۔ /2000دوہزارروپے والی دستیاں حاجی عبداللہ کے رومال میں باندھ دیں ، باقی پیسے اپنے پاس رکھے
[1] صحيح البخاري:كتاب الوكالة،باب نمبر٧:رقم الحديث٢٣٠٧.٢٣٠٨