کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 583
سوال:کیافرماتےہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ ایک جگہ جوکہ رہائش والی ہےاورایک دکان اپنی بیوی کےنام پرہبہ کروا کر گورنمنٹ سےکھاتےبھی کروادی، مکان کاکرایہ وغیرہ مرحوم خودہی وصول کیاکرتاتھااب اس مکان میں موجودساراسامان اس بیوی کاتصورکیاجائےگایاوہ سامان وارثوں میں تقسیم کیاجائےگا، اسی طرح ایک اورمکان بھی تھاجوکہ مرحوم اوراس کی بہن کےنام تھامرحوم نےیہ مکان اپنےبھانجوں کےنام کیاہواہےاس مکان میں ابھی تک کوئی بھی رہائش پذیرنہیں ہے۔ بتائیں کہ شریعت محمدی کےمطابق یہ سامان وغیرہ ہبہ ہوگایانہیں؟ الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیےکہ مرحوم نےجومکان ہبہ کیاتھاوہ بحال اوربرقراررہےگاباقی اگرمرحوم نے سامان بھی ہبہ کردیاتھااوراس کی تحریریاگواہ موجودہیں توپھریہ سامان بھی ہبہ میں شمارہوگاااوراگرتحریرگواہ موجودنہیں ہیں توپھریہ سامان ورثامیں تقسیم کیاجائے گااوراگرمرحوم نے اپنی اشیاہبہ کرکے دی ہیں توپھریہ ہبہ برقراررہےگی۔ باقی جوعلماءکرام قبضہ میں ہونے کی شرط لگاتےہیں وہ غلط ہے اوروہ اپنے اس قول کی دلیل اس حدیث کوپیش کرتے ہیں:((لاتجوزالهبةإلامقبوضة.))یہ حدیث ضعیف ہےجیساکہ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ ص360میں فرمایاہےکہ’’لااصل له مرفوعاوانمارواه عبدالرزاق من قول النخعي كماذكره الذيلعي في نصب الراية٤/١٢١‘‘اس میں ثابت ہوتاہےکہ قبضہ شرط نہیں اسی طرح ایک اورحدیث مبارکہ میں ہے : ((ان المسوربن مخرمة رضي اللّٰه عنه ومروان اخبره ان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم حين جاءه وفد هوازن قام في الناس فاثني علي اللّٰه بماهواهله ثم قال:امابعدفان اخوانكم جاؤنا تائبين و إني رأيت أن أرد اليهم سهم فمن أحب منكم ان يطيب ذلك فليفعل ومن احب أن يكون علي حظه حتي نعطيه اياه من اول مايفي اللّٰه