کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 576
عرض کیادوتہائی اس مال کی پھرآپ نے فرمایانہ دوتہائی بھی نہیں۔ پھرپوچھاآدھااس مال کاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاآدھابھی نہیں۔ پھراس نےکہاتہائی مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاتہائی مال میں وصیت کرکیونکہ تہائی بھی بہت ہے۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کوفرمایاوارث تیرےپیچھےغنی اورآسودہ رہیں یہ بات اچھی ہےیاکہ محتاج اورلوگوں کے دست نگررہیں یہ بات اچھی ہے۔‘‘ حالانکہ شریعت محمدی کبھی بھی ورثاء کونقصان نہیں پہنچاسکتی جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے: ((عن عبادة بن الصامت ان رسول للّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم قضي لاضررولاضرار.)) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: ((عن ابن عباس رضی اللّٰه عنه قال قال رسول للّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم لاضررولاضرارا.)) [1] مذکورہ صورت سےمعلوم ہوتا ہے کہ مرض الموت میں کیاہوازمین کاسوداواپس ہوناچاہیےکیونکہ ان دنوں زمین کی قیمت زیادہ تھی توکم قیمت میں کیسےفروخت کردی ہرباشعورانسان مہنگی چیزکوسستاکیسےفروخت کرےگا۔ دوسری بات یہ کہ ابھی زمین کی خرید و فروخت کی تحریرات بھی نہیں لکھی گئی اس میں دی گئی رقم بطورایڈوانس بھی بہت کم ہے جوکہ غیرمناسب ہے۔ تیسری بات کہ اب تک رجسٹری وغیرہ بھی نہیں ہوئی ، چوتھی بات کہ بیوہ نے ایڈوانس والی رقم واپس کردی اوربھانجوں نےوصول بھی کرلی۔ ان وجوہات کی بناپرثابت ہوتا ہے کہ اس سودےکوختم کرکےواپس کیاجائے مرحوم کے لیے مرض الموت میں یہ فیصلہ کرنابھی ناجائز تھا کہ آخری وقت میں اپنے ورثاکولاوارث چھوڑدےتاکہ دوسرے لوگوں کےسامنےدست درازی کرتے رہیں، لہٰذا یہ زمین اصل ورثاء کی ہی ہوگی۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب
[1] رواة ابن ماجه، كتاب الاحكام،باب من بني في حقه مايضربجاره،رقم الحديث:٢٣٤١.