کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 570
نمبرپراگرمیت پرقرض تھاتواسےاداکیاجائے، تیسرےنمبرپراگرمیت نے کسی کے لیےوصیت کی تھی توکل مال کےتیسرے حصے تک وصیت پوری کی جائے۔ مگرمذکورہ صورت میں بھتیجے کےنام کی جانے والی وصیت کوادانہیں کیاجائے گاکیونکہ بھتیجامیت کاوارث ہےاوروارث کے لیےوصیت جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لاوصية لوارث.))[1]یعنی وارث كے لیے وصیت کرناجائز نہیں ہے۔ لہٰذا اس قاعدے کے مطابق بھتیجےکوکی جانے والی وصیت میں سےبھتیجےکوکچھ بھی نہیں دیاجائے گا۔
اس کےبعدفوت ہونے والے کی ساری ملکیت کوایک روپیہ قراردےکرمذکورہ ورثاء میں ترکہ اس طرح تقسیم کیاجائے گا۔
چاروں بھتیجوں کو ملکیت میں سے ہرایک کوچارچارآنے دیےجائیں گےباقی میت کی دس بھتیجیاں اوربھانجہ محروم ہوں گے اس لیے ان کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
موجودہ اعشاری فيصدنظام میں یوں ہوگا
100
4بھتیجے عصبہ100 ہربھتیجے کو25، 25
10بھتیجیاں محروم
بھانجا محروم
سوال:(1):کیافرماتے ہیں علماءکرام بیچ اس مسئلہ کے کہ بنام قاضی مصطفی فوت ہوگیا جس نے وارث چھوڑے تین بیٹیاں ایک بیوی۔ ایک بھائی فیض النبی۔
(2)......فوت ہونے والے نے اپنے ہاتھ سے ایک ورق پرتحریرکیاکہ میری ساری جائیدادکی مالک میری تین بیٹیاں ہیں۔ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق یہ
[1] مسنداحمدج٤، ص٨٦، رقم: ١٧٦٨٠.