کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 565
سوال:کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ جمال خاتون نےاپنی زندگی میں ہی اپنے والدکی وراثت میں سےملےہوئےکل حصہ اپنی خوشی اوررضامندی کے ساتھ اپنے چچازادبھائیوں غلام حسین اورحبیب اللہ کوبطورہبہ اورہبہ کرکےدےدی۔ اب جمال خاتون کی وفات کے بعدجمال خاتون کابیٹااوردوسرے وارث مذکورہ ہبہ کی ہوئی ملکیت واپس لیناچاہتے ہیں۔ وضاحت کرین کہ اس ہبہ کی ہوئی ملکیت کوواپس لیناجائزہےیانہیں، شریعت محمدی کے مطابق اس کاحکم کیاہے؟ الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیےکہ ہبہ کی ہوئی ملکیت واپس لینا ناجائز ہےجیساکہ حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے: ((عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم العائدفي هبته كالكلب يقيئي ثم يعودفي قيئه.)) [1] ’’ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہبہ کی ہوئی چیزکو لوٹنے والا کتے کی مانند ہے جوقے کرتا ہے اورپھراس کوکھا لیتا ہے۔‘‘ معلوم ہواکہ مالک کی ہبہ کی ہوئی ملکیت واپس لیناناجائز ہے اس لیےورثاکے لیے اس ہبہ کی ہوئی ملکیت کوواپس لینابالاولی ناجائز ہے۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب سوال:کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ ایک آدمی زیدفوت ہوگیااوروارث چھوڑے ایک بیوی، دوبیٹے، دوبیٹیاں۔ وضاحت کریں کہ شریعت کے مطابق مرحوم کی ملکیت میں سےوارثوں کوکتناکتناحصہ ملےگا؟ الجواب بعون الوھاب: معلوم ہوکہ مرحوم کی ملکیت میں سےمرحوم کے کفن دفن کےخرچےاورقرض وغیرہ ادا کرنے کے بعد باقی ملکیت کوایک روپیہ قراردےکروراثت اس
[1] صحيح البخاري،كتاب الهبة، الخ، باب نمبر٣٠،مسلم كتاب الهبات، باب نمبر٢، نسائي،كتاب الهبة، باب ذكرالاختلاف علي طاوس في الراجع هبته.رقم الحديث:٣٤٦١.