کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 564
اسے حصہ ملا ہے اوربیوی وارث ہے اوروارث کے لیے وصیت جائز نہیں جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لاوصية لوارث.)) [1]’’ارث كے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔‘‘
اس کےبعدمرحوم کی کل ملکیت خواہ منقولہ ہویاغیرمنقولہ کوایک روپیہ قراردےکراس طرح تقسیم کیاجائے گا۔ بیوی کو چوتھا حصہ4 آنےملیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان:﴿وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ﴾کی وجہ سےبہن کوآدھا8آنےاللہ تعالیٰ کےفرمان﴿إِنِ ٱمْرُؤٌا۟ هَلَكَ لَيْسَ لَهُۥ وَلَدٌ وَلَهُۥٓ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ﴾کی وجہ سےباقی جوچوتھاحصہ4آنےبچیں گےوہ چچازادبھائی کے دونوں بیٹوں کودودوآنے دیں گے۔
هذا ماعندي و اللّٰه اعلم بالصواب
سوال:کیافرماتے ہیں علماءدين اس مسئلہ میں کہ ايك عورت مسمات سوہنی فوت ہوگئی اورورثاءمیں خاوند، دوبیٹیاں 2بھائی چھوڑے۔ مرحومہ کی ملکیت میں سے وارثوں کوکتنا ملے گا؟
الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوکہ مذکورہ صورت میں پہلےمرحومہ کے کفن دفن کاخرچہ مرحومہ کی ملکیت میں سےنکالاجائے، پھرقرض اداکرنے کے بعد باقی ملکیت کوایک روپیہ قراردےکر4آنے خاوندکو5آنے4پائیاں ہرایک بیٹی کواورآٹھ پائیاں ہر ایک بھائی کودیےجائیں گے۔
هذاهوعندي والعلم عندربي
موجودہ اعشاری نظام میں یوں بھی تقسیم ہوسکتا ہے
ترکہ 100
خاوند4/1/25 2بیٹیاں3/2/66.66 2بھائی عصبہ8.34
[1] مسنداحمد،ج٤ص١٨٦، رقم الحديث: ١٧٦٨٠-جامع الترمذي،كتاب الوصايا،باب ماجاءوصية لوارث رقم الحديث: ٢١٢٠-ابن ماجه،كتاب الوصاياباب لاوصة،١٢.