کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 558
کچھ ملے گایا نہیں؟بینواوتوجروا.
الجواب بعون الوھاب بشرط صحت السوال:معلوم ہوناچاہیےکہ فوتی اگراپنی زندگی میں تمام ملکیت اپنے بیٹے اوربیٹی کے حوالے کردےتویہ جائز ہے اوراس وقت کوئی دوسری اولادنہیں ہے۔ یہ اس صورت میں ناجائز ہوتی جب کچھ اولادکوملکیت دےدےاورکچھ کو محروم کردےحالانکہ اس وقت کوئی دوسری اولادنہیں تھی۔ باقی ملکیت بعدمیں فوتی نےبنائی اس میں حصہ کے مطابق ہرایک کوحصہ ملا۔ فوتی نے جوپہلے لکھ کردیاپہلے جووارث تھے وہ ملکیت ان وارثوں کی ہوگی۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب.
سوال:کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ ایک آدمی نےاپنی ملکیت اپنے بیتے کوہبہ کردی بعدمیں بیٹافوت ہوگیا۔ اب اس مرحوم کی ملکیت میں سے باپ کوحصہ ملےگایانہیں؟
الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیےکہ اس ہبہ کی ہوئی ملکیت سےوالدکوورثاءکی طرح حصہ ملے گا۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بیان ہواہے کہ:
((جاءت امراة الي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم فقالت يارسول اللّٰه اني تصدقت علي امي بجارية وانهاماتت فقال آجرك وردعليك الميراث.)) [1]
’’ايك عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اورعرض کیا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک لونڈی اپنی ماں کوصدقہ کےطورپردی ہے پھرمیری ماں فوت ہوگئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتجھےتیرےاس صدقےکااجربھی ملے گا اورآپ وارث کی حیثیت سےدوبارہ اس لونڈی کواپنی وراثت میں لے سکتی ہیں۔‘‘
اس لیےاب وہ باندی آپ کی ملکیت ہے۔ هذا ماعندي والعلم عندربي.
[1] سنن ابن ماجه:كتاب الصدقات،باب من تصدق بصدقة ورثها، رقم:٢٣٩٤.