کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 557
سوال:کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ محمدرمضان کےچھ بیٹے ہیں جس میں سے4اکٹھےاور2جداجداہیں، عرض یہ ہے کہ جوبیٹے الگ ہیں وہ اپنے والدکوگھرسےنکالناچاہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ گھرہماراہےاس گھرکی جگہ ہماری ہے، اورباپ کوگھرسےزبردستی نکال دیناچاہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اگرنہیں نکلتے توپھرہمیں اس کی قیمت اداکرو۔
شریعت محمدی کے مطابق اس جگہ کاحقداربیٹاہےیاباپ؟
الجواب بعون الوھاب:معلوم ہوناچاہیےکہ اس جگہ کامالک باپ ہےجیساکہ حدیث پاک میں ہے :
((أنت ومالك لأبيك.)) [1]
’’نبی كريم صلی اللہ علیہ وسلم نےایک آدمی کوفرمایاتھاکہ تواورتیرامال تیرے باپ کی ملکیت ہو۔‘‘
باپ کےہوتے ہوئے بیٹاکسی بھی چیز کا حقدارنہیں ہےاس لیے اس جگہ کاحقیقی مالک محمدرمضان ہے۔ و اللّٰہ اعلم بالصواب۔
سوال:کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ محمدصدیق کی دوشادیاں تھیں۔ ایک بیوی سےایک بیٹااوربیٹی اس کے بعدبیوی فوت ہوگئی۔ محمدصدیق نےدوسری شادی کرناچاہی مگرگھروالوں نے اس وقت فوتی سےتمام ملکیت بیٹے اوربیٹی کےنام لکھوادی اورمحمدصدیق نے دوسری شادی کی اس سےایک بیٹی پیداہوئی اب محمد صدیق فوت ہوگیاہےاس کی بیوی اورایک بیٹی زندہ ہے۔ اب اس بیٹی کواپنے باپ کی اصل ملکیت سےکچھ نہیں ملا۔ باقی والدکے بعدمیں لیے ہوئے دوکانوں سےاس بیوی اوربیٹی کوشریعت کےمطابق حصہ ملا۔ اب عرض یہ ہے کہ مرحوم محمدصدیق کی اصل ملکیت سےاس بیوی اوربیٹی کو
[1] مسند احمد٢/٢٠٤وسنن ابي داود،كتاب البيوع باب الرجل ياكل من مال ولده،رقم الحديث٣٥٣٠سنن ابن ماجه كتاب التجارات،باماللرجل من مال ولده،رقم:٢٢٩١.