کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 533
﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُولِ﴾ (النساء:٥٩)
’’ اوراگرتم کسی بات پراختلاف کروتواس پورے معاملے کواللہ اوراس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاو۔ ‘‘
تقلیدکےمفاسد:
(1):......مقلداپنی خدادادصلاحیتوں اورعلمی استعدادکوبالکل کھوبیٹھتاہےجس کی وجہ سےکہ اس کے ذہن پریہ خیال بیٹھ جاتاہےکہ اس پرصرف یہ فرض ہے کہ وہ کسی نہ کسی ذریعہ سےوہ علم حاصل کرلےکہ اس کے امام نے اس مسئلہ کے متعلق اس کو یوں حکم دیاہے اس علم حاصل کرنے کے بعداس پردوسراکوئی فریضہ نہیں ہےاوراس کافرض صرف یہ ہے کہ وہ اپنےامام کے قول پرعمل کرےاوربس! اس لیے ایساآدمی علم رکھنے کے باوجودکتاب وسنت کےنصوص اوراللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےارشادات عالیہ میں غوروفکرکرنااورتدبروتفکرسےکا لیناترک کردیتا ہےاوراپنے امام کے اقوال میں غوروفکرکرکےمسائل کااستخراج واستنباط ضروری سمجھے گا، اس لیے وہ اپنی علمی لیاقت کوبالکل بیکاربنادیتا ہےاللہ تعالیٰ نے جولیاقتیں اورصلاحیتیں انسان کوعطافرمائی ہیں۔ جب انسان ان سےکام لیناچھوڑدیتا ہے تووہ رفتہ رفتہ بیکارہوجاتی ہیں اللہ تعالیٰ نےانسان کودل ، آنکھیں اورکان اس لیے دیئےہیں کہ وہ ان سےکام لےکرحق کوسمجھ سکےاورپوری طرح عمل پیراہوسکےلیکن اگروہ اپنے دل سےحق کےبارے میں نہیں سوچتاآنکھوں سےحق بات نہیں دیکھتااورکانوں سےبھی حق بات سننے کےلیےتیارنہیں رہتاتوایک وقت ایساآئے گاکہ اس کے یہ سوچنے سمجھنے والے اعضاء بالکل بیکاراورناکارہ بن جائیں گےپھرایسے آدمی کے لیے حق کی راہیں بندہوجاتی ہیں۔
(2)......اس قسم کی بےدلیل تقلید کامطلب یہ ہوگاکہ مقلداپنے مقلدکوگویانبوت کامنصب دےرہا ہےجب کہ نبی تواللہ تعالیٰ کی طرف مبعوث ہوتا ہے اس کی ہرایک بات بجائے خودایک دلیل ہوتی ہے اس لیے نبی کے فرمان ملنے کے بعدکسی امتی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ اس پیغمبرسےحکم کی دلیل مانگےبلکہ اس کاتوحکم ہی خوددلیل ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا