کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 527
اس سےبھی روایت کرنے والاایک ہے اس کے بعدنیچے جاکرکئی شاگردبنتے ہیں۔
کیایہ روایت اس لیےمنکرکہی جائے گی کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ سےبیان کرنےوالااورپھران سےبیان کرنے والاایک ہی راوی ہے؟ہرگزنہیں! جب کہ حسین جعفی ثقہ اورمتقن حافظہ کامضبوط ہےاس کےاوپرجرح بھی ثابت نہیں ہے توایسے ثقہ کی روایت کو منکرقراردیناسراسرناانصافی ہے۔
علاوہ ازیں منکرقراردینے کاسبب یہ بھی ہوتا کہ حسین جعفی اس حدیث میں کسی اوثق(اپنے سےزیادہ ثقہ)کی مخالف کی ہو، لیکن ایسابھی نہیں ہےاورنہ ہی متن میں ایسی کوئی بات ہے جودوسری احادیث کے مخالف ہوبلکہ متن کے توکتنے ہی دوسرے صحیح شاہد موجودہیں۔ جمعہ کےبارےمیں جوکچھ بیان ہےاس کی مئویدسیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہےجوکہ مسلم، ابوداود، ترمذی، نسائی، ابن خزیمہ وغیرہم میں مذکورہےجومعنی کے اعتبارسےاس حدیث کے متفق ہے۔
اسی طرح انبیاءکرام علیہم السلام کےاجسام کومٹی وغیرہ نہیں کھاتی اس کے بھی شواہدموجودہیں اوراس کاشاہدوہ صحیح حدیث بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات دیکھاکہ موسی علیہ السلام قبرمیں نمازپڑھ رہے ہیں قبرمیں نمازتب ہی پڑھی ہوگی ، جب ان کا جسم اطہرصحیح سلامت ہوگاحضرت موسی علیہ السلام اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کتنا بڑاوقفہ ہے وہ ہرکوئی جانتا ہےلیکن اتنے طویل بلکہ اطول عرصہ کے بعدبھی ان کا جسم مبارک صحیح سالم تھابہرحال یہ حدیث صحیح بھی اس حدیث مبارک کے اس ٹکڑے :
((ان اللّٰه حرم علي الارض.)) (الحديث)
کی مئویدہےاسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس امت کےدرودوسلام کاپہنچنابھی کتنی ہی احادیث صحیحہ میں موجود ہے جن میں یہ بیان ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کےفرشتےامت کی طرف سےبھیجےگئےصلوۃ وسلام کوپہنچاتے ہیں۔ اب بتایاجائے کہ آخراس حدیث میں کون ساٹکڑامنکرہےجودوسری احادیث صحیحہ کی مخالف میں ہےجس کی وجہ سے اس کومنکرکہا