کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 526
اس کاجواب یہ ہے کہ امام ابوحاتم نے حسین جعفی کی ابن جابرسےسماع کے انکارپرکوئی ٹھوس ثبوت نہیں پیش کیا ہے جوپانچ چھ حدیثیں ذکرکی گئی ہیں وہ ابواسامہ کے واسطےسےنہیں آخراس میں حسین جعفی کاکیا قصور؟کرےکوئی بھرےکوئی یہ کہاں کاانصاف ہے؟ کیاحسین جعفی کااہل عراق میں سےہوناہی اس پر دلیل ہے کہ وہ ابن جابرسےروایت نہیں کرتا؟خودسوچیں کہ یہ توکوئی دلیل نہیں ہے ابواسامہ سےواقعتاًکچھ غلطیاں ہوئی ہیں لیکن حسین جعفی کی اس قسم کی غلطی کسی نے بھی بیان نہیں کی ہے۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ التقریب میں ابواسامہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: ((وكان باخره يحدث من كتب غيره.)) یعنی آخرعمرمیں وہ دوسروں کی کتابوں سےحدیثیں بیان کرتا تھااوریہی سبب ہے کہ اس سےچندغلطیاں صادرہوئیں اس کے برعکس حسین جعفی پرایساکوئی الزام نہیں ہےبلکہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ تہذیب التہذیب میں محمدبن عبدالرحمن الہروی سےنقل کیا ہےکہ: ((مارايت اتقن منه.)) [1] یعنی حسین جعفی سےبڑھ کرزیادہ متقن(مضبوط حافظہ والا)میں نے نہیں دیکھا۔ لہٰذا ایسےمتقن اورثقہ راوی کےبارے میں بغیردلیل کہ سوءظن رکھناکہ وہ ابن جابراورابن تمیم کے درمیان فرق نہ کرسکابڑی بےانصافی ہے۔ باقی ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ کہنا کہ ’’یہ حدیث(اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کی)منکرہےمیں نہیں مانتاکہ حسین الجعفی کے بغیرکسی نے اس روایت کوبیان کیا ہو۔ ‘‘ یہ بھی عجیب ہے کہ یہ حدیث منکرہے، کیونکہ دوسرے کسی نے یہ روایت نہیں کی ہے کسی دوسرے کا یہ روایت کرناکوئی نکارت کی علت نہیں بن سکتی، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی صحیح میں پہلی روایت (انماالاعمال بالنيات.)بھی سیدناعمررضی اللہ عنہ کے بغیرکسی دوسرے سےواردنہیں ہےاوران سےبھی صحیح سندکےساتھ روایت کرنے والاایک ہی راوی ہے۔ جب کہ
[1] التهذيب: صفحہ٣٠٨،جلد٢طبع نشرالسنة لاهور.