کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 504
جائزہے۔ ‘‘ یہ امرحقیقت میں فرضی نہیں بلکہ یہ آپ کی طرف سےرخصت ہے جس پردلیل دوسری صحیح حدیث ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں: ((لاتذبحوا الا مسنة الا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن.)) [1] ’’یعنی قربانی کے جانوروں میں سے مسنہ(دودانتوں والے جانور)کے علاوہ دوسرے جانورکی قربانی مت کرومگرجب مسنہ نہ ملےتوپھرایک دنبہ ذبح کردوجوجذعہ ہویعنی دوندہ نہ ہو بلکہ آٹھ نوماہ کا ہو۔ ‘‘ اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ام بلال رضی اللہ عنہاوالی حدیث میں بھی امرمحض رخصت کےلیے ہے نہ کہ وجوب کے لیے ورنہ اگراس وجوب پرعمل کروگے تواس کا مفہوم یہ بنے گاکہ قربانی کے لیے صرف دنبوں کاجذعہ ہی ذبح کیا جائے ۔ دوسرانہیں حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ احادیث مروی ہیں مگران میں سے کوئی بھی سنداًصحیح نہیں مگرصرف ایک حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ((انه صلي اللّٰہ عليه وسلم قال من وجد سعة فليضح.)) ’’یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاجسےگنجائش ہووہ قربانی کرے۔ ‘‘ یہ حدیث اگرچہ مذکورہ بالابیان کی گئی احادیث کے ہم پلہ نہیں، تاہم اس کے روات ثقہ ہیں مگراس میں بھی امر استحبابی ہے کیونکہ اس طرح ہی دیگر دلائل کے ساتھ جن میں کچھ ذکرکئےگئے ہیں اس روایت کو جمع کیاجاسکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں جمع نہیں ہوسکتا، اس کے بعدترجیح کی طرف رجوع کیاجائے گاتولامحالٰہ یہی احادیث جن سے معلوم ہوتا ہےکہ قربانی واجب نہیں اس حدیث پرراجح ہوں گی کیونکہ یہ واضح ہیں اوراپنے مطلب پرواضح ہیں اورحدیث مرجوح ہوگی۔
[1] صحيح مسلم:كتاب الاضاحي، باب من الاضحية:رقم الحديث: ٥٠٨٢.