کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 503
((لايصح عن احدمن الصحابة انهاواجبة وصح انهاليست واجبة عن الجمهور.)) [1] یعنی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سےثابت نہیں اوریہ بات جمہورعلماء سےمنقول ہے۔ باقی جس شخص نے نماز سےپہلے قربانی کردی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ قربانی کرنے کاحکم فرمایا، اس سےبھی قربانی کے وجوب پراستدلال نہیں کیا جاسکتا اس لیےکہ اس بات میں کوئی عجب ونکارت نہیں کہ دین میں کوئی ایسا کام ہوجوفی نفسہ نہ ہولیکن اس کابدل یا عوض اورضروری ہو، کیونکہ جوقربانی کے وجوب کے قائل ہیں۔ (مثلاً علماء احناف)وہ اس بات پر متفق ہیں کہ مثلاًکسی شخص نے کسی ایسے دن نفلی روزہ رکھا جس دن کا روزہ اس پرنہ تھامگراس نے عمداً(جان بوجھ کر)روزہ توڑڈالاتویہی علماء کہتے ہیں کہ اب اس پردوسرے دن کا روزہ واجب ہے حالانکہ پہلا روزہ جواس نے رکھا تھا وہ اس پر نہ تھا بلکہ نفلی تھااورکہتے ہیں کہ کسی نے نفلی حج کا احرام باندھاپھراسےفاسدکردیاتواس پر حج کی قضاء ہے۔ حالانکہ وہ حج اس پر نہیں تھا بلکہ نفلی تھا۔ اس طرح قربانی بھی اگرچہ ابتداًنہیں مگرصحیح طورپرادانہ کرنے کے سبب(مثلاًنمازسےپہلے قربانی کردے)شارع علیہ السلام نے اس پر اس کااعادہ لازمی قراردیا ہے مسلمان کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کےسامنے سراطاعت وتسلیم خم کرےپھرجہاں حکم ہوگاوہاں چوں چراں بھی نہ کی جائے گی۔ وہ حکم لازمی ماناجائے گااورجہاں حکم نہیں ہوگااورمحض فعل مبارک ہوگاتووہاں سنتاواستحباباپیروی اتباع کی جائے گی لیکن تصورنہ کیاجائے گا۔ باقی رہی ام بلال الاسلمیہ والی حدیث جوابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے ان الفظ کے ساتھ نقل کی ہے کہ: ((قالت قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليه وسلم ضحوابالجذع من الظأن فانه جائز.)) ’’یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ دنبے میں سےجذعہ کی قربانی کروبلاشبہ یہ
[1] المحلي، جلد٦، صفحہ ١٠، كتاب الاضاحي، مسئله:٩٩٣.