کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 502
اس پرتمام پابندیوں کاخیال رکھنا ضروری ہےجوفرضی روزہ میں ہوتی ہیں۔ علی ہٰذاالقیاس بعینہٖ قربانی کامعاملہ بھی ہے یعنی گوقربانی فی نفسہ نہیں مگرجوشخص کرےگاتواس پریہ پابندی ضرور لاگوہوگی کہ وہ ذوالحج کےچانددیکھنے کے بعدقربانی کاجانورذبح کرنےتک حجامت نہ بنوائے زیادہ سےزیادہ قربانی کے وجوب وفرضیت پرجودلیل پیش کی جاتی ہے وہ حدیث ہےجوسنن ابن ماجہ، ابواب الاضاحي باب الاضاحي واجبة هي ام لا، رقم الحديث،١٣٢٣میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من كان له سعة ولم يضح فلايقربن مصلانا.)) ’’یعنی جسے وسعت ہوپھربھی قربانی نہ کرےتووہ ہماری عیدگاہ کےقریب بھی نہ آئے۔ ‘‘ لیکن اول تواس حدیث کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے اورصحیح بات یہ ہےکہ یہ حدیث موقوف ہے نہ کہ مرفوع جیساکہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں لکھاہےاورحجت مرفوع حدیث میں ہے نہ کہ موقوف میں دوسرایہ کہ اگراسےمرفوع تسلیم ہی کرلیاجائے توبھی یہ حدیث وجوب پرصراحتاً دلالت نہیں کرتی بلکہ اس سے صرف اس کی تاکیدمعلوم ہوتی ہے۔ جیسا کہ پیاز وغیرہ کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے کہ پیاز(کچا)کھاکرمسجدمیں نہ آئیں بلکہ صحیح حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوپیازوغیرہ بدبودارشےکھاکرمسجدمیں آتاتھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسےبقیع(مقام)تک دورمسجد سےنکلوادیتے تھے محض تنبیہ کی خاطر۔ حالانکہ تمام علماء کااس بات پر اتفاق ہے کہ اس سے پیاز کی حرمت ثابت نہیں ہوتی یعنی پیاز کھاناحرام نہیں کیونکہ دیگردلائل سےاس کی حلت معلوم ہوتی ہے اورحکم محض تنبیہ وتاکیدکے لیے تھااس طرح حدیث سےبھی(اگراس کا مرفوع ہونا ثابت ہوتو)صرف قربانی کاموکدہوناثابت ہوتا ہے لاغیر۔ اسی طرح مشہورمحدث حافظ ابن حزم ظاہری فرماتے ہیں کہ :