کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 421
دوسری طرف اگرکسی آدمی کا کوئی نیک عمل ہے لیکن خوداس عامل کے نزدیک ا س کی کوئی اہمیت نہیں مگراس کی نیت میں اخلاص اورسچائی ہے اوروہ کام صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کی خاطراورشوق ورغبت کے ساتھ کرتا ہے جواللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کو ایسا پسندآجاتا ہے کہ وہ صرف اسی ایک عمل یازبردست اوعتقادی جذبہ کے سبب بہت ہی بلند درجات پرفائز ہوجاتاہےبلکہ بعض لوگوں کے توسارے کے سارے گناہ صرف اس ایک نیکی کی وجہ سے نیست ونابود وختم ہوجاتے ہیں۔
صحیحین میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ سیدناوامامنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’ایک شخص تھا جس نے کوئی بھی نیکی کاکام اصلاً نہ کیا تھا، پھرجب اس کی موت کاوقت قریب آیاتواس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ اگرمیں فوت ہوجاؤں تومیری لاش کو جلاکرآدھی راکھ دریاؤں میں پھینک دینا اورآدھی کو خشکی پرچھوڑدینا(کیونکہ)اگراللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجھ پرگرفت کی تواللہ تعالیٰ مجھے ایسا عذاب کرےگاجوعذاب تمام جہانوں میں سے کسی کوبھی نہ کرےگا۔ اورجب وہ مرگیاتواس کی اولادنے اس کے ساتھ ویسا ہی کیاجواس نے انہیں کہاتھاپھراللہ تعالیٰ نے دریاکوحکم دیااس نے اس کی راکھ کاحصہ ایک جگہ جمع کردیا اورخشکی کوبھی حکم فرمایااس نے بھی وہ حصہ ایک جگہ اکٹھاکردیا۔ پھراللہ نے اس کواپنےسامنے کھڑاکرکے ارشادفرمایاکہ تونے اپنے ساتھ یہ معاملہ کیوں کروایاتھا، اس نے کہا اے رب تیرے خوف کی وجہ سے جس کو توہی بہتر جانتا ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔ ‘‘
اس صحیح حدیث سےمعلوم ہواکہ اگرچہ بظاہراسےاپناکوئی نیک عمل نظرنہیں آرہاتھابلکہ وہ اپنے اعمال سےناامیدتھالیکن اس کے دل میں جو اللہ تعالیٰ کا خوف موجزن تھا جس کا اندازہ اہل دنیا کواوراس کی اولادکو بھی نہ تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کومکمل طورپرمعلوم تھاکہ اس میرے بندے