کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 420
معیارکیاہوگااس کےمتعلق کچھ کہنانہایت ہی مشکل امرہےکیونکہ یہ غیب کے معاملات ہیں جن تک ہماری پہنچ نہیں ہوسکتی ان پر صرف ایمان رکھنا ہے ہاں یہ ہم قطعی طورپرجانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی کے ساتھ بھی ذرہ برابرظلم وزیادتی نہیں فرمائے گا ﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـٰعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرً‌ا عَظِيمًا﴾ (النساء: ٤٠) یعنی اللہ تعالیٰ ذرہ برابربھی ظلم نہیں کرتا۔ ﴿وَنَضَعُ ٱلْمَوَ‌ٰزِينَ ٱلْقِسْطَ لِيَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْ‌دَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَـٰسِبِينَ﴾ (الانبياء: ٤٧) ’’قیامت کے دن ہم انصاف کا میزان قائم کریں گے پھر کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گااگرکسی کا عمل رائی کے دانے کے برابرہوگاوہ بھی لاکرحاضر کردیں گے اورہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔ ‘‘ ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيْرً‌ۭا يَرَ‌هُۥ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ۭا يَرَ‌هُۥ﴾ (الزلزل: ٧’٨) ’’جس نے ذرہ برابربھی نیک کام کیا ہوگاوہ اسےدیکھ لےگااورجس نے ذرہ برابربرائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔ ‘‘ لیکن اعمال کادارومدارنیتوں پرہے۔ مثلاًایک شخص کا عمل ایسا بہترین اوراچھاہے کہ اس کی جزا جنت کےعلاوہ ہوہی نہیں سکتی۔ مثلاً اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں جہادکرکےشہیدہوجانالیکن اگراس شخص کے قتال و جہادمیں شرکت کرنےاورکفارسےمقابلہ کرنے کی نیت یہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے یا’’لتكون كلمة اللّٰہ هي العليا‘‘ کےلیےبھی نہ لڑابلکہ اس کی نیت یہ تھی کہ دنیا میں میری شجاعت، جرات وبہادری مشہورہوجائے تویہ شخص صحیح احادیث کے مطابق شہادت کے باوجودجہنم میں داخل کردیاجائے گا۔