کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 419
لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنی مشیت سےچاہے اسےسزادےیاپھرمعاف کردے۔ البتہ ایسےبےنمازشخص سےہم دنیامیں مسلموں کاسابرتاؤ کریں گے کیونکہ اس دنیا میں ایک مسلمان کی یہ بہت بڑی علامت ہے کہ وہ نمازی ہوتا ہے۔ اگرنمازی نہیں ہےتواسلامی برادری سے(بنص قرآنی)خارج ہے یہ اس لیے کہ وہ آدمی نماز کی فرضیت کا اگرچہ قائل بھی ہولیکن ہمیں کیسے معلوم ہوگا؟کیونکہ ایمان ویقین تودل میں ہواکرتے ہیں اوردل اورنیت وارادےپراطلاع تواللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں، لہٰذا ہمارے نزدیک اس کےاندرونی ایمان کے متعلق علم کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے ہم اسے اپنا مسلمان بھائی نہیں سمجھیں گے۔ باقی اللہ سبحانہ و تعالیٰ توجانتا ہے یہ بندہ نماز کی فرضیت کامنکرہے اورمنکرنہیں لیکن سستی اورغفلت کے سبب اس کے ترک کا مرتکب ہواہے، لہٰذا قیامت کے دن اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے عمل کے مطابق فرمائے گا۔ صحیحین وغیرہ کتب احادیث میں کتنی ہی ایسی احادیث واردہوئی ہیں جن کا مطلب ہےکہ بالآخراللہ تبارک و تعالیٰ ایسے اشخاص کوبھی جہنم سےنکال دے گا جن کا کوئی بھی نیک عمل نہ ہوگاصرف وہ کلمہ ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ پرکاربندہوں گےیعنی وہ موحدہوں گے اورشرک جیسے بدترین گناہ سےبے زارہوں گے۔ (توحید وشرک کی مکمل وضاحت سوال نمبر1کے جواب میں گزرچکی ہے ۔ ) ان احادیث مبارکہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ تارک نماز ترک نماز کی وجہ سےایسا مشرک یا کافر نہیں بن گیاجوملت اسلامیہ سےدنیاوآخرت میں خارج ہوگیا ہو۔ اگریہ بات واقعتاً اسی طرح ہے توپھربالآخراس کا جہنم سےنکلنے کاکیا مطلب ہے؟کیاحقیقی معنی میں کافرومشرک بھی بالآخرجہنم سےنکال کرجنت میں داخل کردیےجائیں گے؟باقی سائل صاحب نے(اس سوال میں)جن نیک اعمال کاتذکرہ کیا ہے اس کے متعلق گزارش ہے کہ آخرت کے معاملات یا فیصلہ جات یااعمال کی جزاوسزاکے متعلق دنیاوی معیاروپیمانہ وغیرہ سےہرگزکام نہ لیں وہاں اعمال کا وزن کیسے ہوگاان کی صحت کا صحیح