کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 418
ایساکافرنہیں کہ وہ اصلاً دین اسلام سےخارج ہوجائے یادیگرمشرکین یاکفارکی طرح ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےابوداؤد، نسائی اورترمذی میں ایک روایت مروی ہے جس کےمتعلق محقق العصرعلامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ (شاہ صاحب کا یہ فتویٰ اس وقت کاتحریرکردہ ہے جس وقت علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ زندہ تھے جب کہ اب تودونوں بزرگ علامہ البانی اورحضرت شاہ صاحب اللہ کوپیارے ہوگئےرحمہم اللّٰہ وادخلهماالجنة الفردوس:محمدي)مشکوٰۃ شریف کی تعلیقات میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ اسی طرح امام احمدرحمۃ اللہ علیہ کی مسندمیں اورالمستدرک حاکم میں بھی رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت ہے اس کی سند بھی صحیح ہے۔ اس میں ہے کہ صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئےسناآپ نے فرمایاکہ قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کاحساب ہوگاپھراگرنماز کاعمل درست نکلاتووہ کامیاب ہوگیااورناجی ہوا۔ اوراگرنمازمیں فسادہوااورکمی ہوئی تووہ خائب اورخاسر ہوگا پھراگرفرض میں کسی کی کمی نکلے گی تورب تعالیٰ فرمائے گادیکھواگرمیرے بندے کی کوئی نفلی نمازہے تواس کے ذریعے اس کی فرض کی تکمیل کردو۔ اسی طرح اس بندے کے باقی دیگراعمال کے ساتھ بھی یہی طرزعمل اختیارکیاجائے گا، یعنی اگرفرائض میں کچھ کمی ہوگی تووہ نوافل کے ذریعے مکمل کردیے جائیں گے۔ کسی روایت میں یہ تصریح ہے کہ نماز کے بعدزکوٰۃ اورپھر دیگر اعمال کے متعلق اسی طرح طرزعمل اختیارکیاجائے گایہ بات بالکل ظاہراورعیاں ہے کہ اگرتارک نمازکاکفرمخرج عن الملۃ ہوتوپھر(ایک کافراورمشرک)جس کے کچھ نیک اعمال ہوں مثلاً سخاوت، یتیموں کاخیال رکھنا، صلہ رحمی وغیرہ وغیرہ تووہ اس کے شرک وکفرکے نقصان کو پوراکرسکتے ہیں؟ ہرگزنہیں پھر اگرتارک نماز کے نقصان کے تکمیل نوافل کے ذریعے کی جائے گی توپھر معلوم ہوا کہ ترک نماز سےایساکافرنہیں ہواکہ اصلاً ملت اسلامیہ سےخارج ہوجائے بلکہ ایک کبیرہ وسنگین گناہ کامرتکب ہواہے۔