کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 417
یہ قتال بہت بڑاگناہ ہے اورکفرکے اجزاء میں سے ایک اہم جزہےکہ اس کی اہمیت وسنگینیت کےلحاظ سےجزپرکل کااطلاق ہوا۔ یعنی ایک مسلمان کے ساتھ قتال کافرہی کرسکتا ہے مومن کبھی بھی ایسی جرات نہیں کرے گا۔ لہٰذا جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مارنے کے یے تیارہواہے تواس نے کفارکے ساتھ مشابہت اختیارکی پھرجب کندذہن انسان کوگدھاکہاگیا اسی طرح کفارکے ساتھ مشابہت اختیارکرنے والے پرکفرکااطلاق ہوا۔ کہا جاتاہے کہ فلاں گدھابن گیا ہے۔ اس کا مطلب کوئی یہ بھی اخذ نہیں کرتاکہ اس شخص نے واقعتاً گدھے کی شکل اختیار کرلی ہےبلکہ ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ وہ آدمی بالکل بے وقوف اورکندذہن بن گیا ہے۔ اسی لیے جوتارک نماز ہے اس نے چونکہ ایک نہایت سنگین جرم میں کفارکے ساتھ مشابہت اختیارکی ہے لہٰذا اس کے متعلق کہاگیا ہے کہ وہ کافرہوگیا ہے ۔ اس طرح محققین علماء بے نمازی کی نمازجنازہ پڑھنے کے قائل نہیں یہ بھی اسی لیے کہ اس نے نہایت سنگین جرم کیا ہے اس جرم کی پاداش میں بطورسزااس کی نمازجنازہ نہیں پڑھی جائے گی اوراس طرح کاطرزعمل دیگرلوگوں کے لیے تنبیہ اورعبرت کاباعث ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تومال غنیمت میں سے کوئی تقسیم سے پہلے کچھ چراتاتھاتو اس کی نماز جنازہ بھی ادانہیں فرماتے تھے اوراس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض کی نماز جنازہ بھی ادانہیں فرمائی۔ حالانکہ مقروض یا مال غنیمت میں خیانت کرنے والاکافرنہیں ہے۔ ہاں البتہ کبیرہ گناہ کامرتکب ہواہےاسی طرح خودکشی کرنے والے پربھی آپ نے نمازجنازہ ادانہیں فرمائی۔ حالانکہ صحیح مسلم کی ایک حدیث سےمعلوم ہوتاہے کہ وہ کافرنہیں ہوا۔ صحیح مسلم میں ایساغلام جواپنے آقاسےبھاگ نکلے اسےبھی کافرکہاگیا لیکن وہاں پربھی عبدآبق پرکفرکااطلاق محض مبالغہ کے طورپرہواہےلیکن اس سے مرادکفرمخرج عن الملۃ نہیں بلکہ کفردون کفرمرادہے۔ اس طرح کی دیگر امثلہ تلاش کرنے سے مل سکتی ہیں۔ اب ہم ایسے کچھ مثبت دلائل پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ تارک نماز(بشرطیکہ وہ اس کی فرضیت پرایمان رکھتا ہو)