کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 416
کہ واقعتاً وہ آدمی شیر(پھاڑنے والاجانور)یاحقیقی طورپرگدھاہے۔ (3):......کفرکااطلاق شریعت میں کفران نعمت (ناشکری)پربھی ہواہے۔ مثلاًصحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سےفرمایاکہ مجھے دیکھنے میں آیا ہے کہ تم اکثرجہنم کی آگ میں ہوانہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس بناپر؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تكفرن"تم کفرکرتی ہوانہوں نے پھردریافت کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفرکرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔ شوہرہمیشہ عورت سےبہترطریقے سےپیش آئے گالیکن کبھی اتفاقاًکوئی بات اس کی مرضی کے خلاف کربیٹھایااس کاکہانہ مانا تووہ کہے گی تونے میرے ساتھ کبھی بھی احسان نہیں کیا۔ بہرحال کفرکااطلاق ناشکری پربھی ہواہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں بھی متعددمقامات پر "كفر" يا "كفور"وغیرہ الفاظ ناشکری کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ اسی طرح کفرکااطلاق کفرمخرج عن الملۃ سےکم درجے پر بھی ہوا ہے۔ ایسی احادیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے"كفردون كفر"کاباب منعقدفرمایاہے۔ مثلاًصحیح حدیث میں واردہواہے کہ: ((سباب المسلم فسوق وقتاله كفر.)) [1] ’’مسلمان کو برابھلاکہنافسق ہےاوراس سے قتال کرناکفرہے۔ ‘‘ حالانکہ قرآن کریم سورۃ الحجرات میں ہے کہ: ﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات:٩) ’’اگرمومنین کی دوجماعتیں آپس میں قتال کریں توان دونوں میں صلح کرادو۔ ‘‘ یعنی مسلمان مسلمان کے ساتھ قتال کرنے کےلیے تلوارلے کرنکلاہے لیکن تب بھی اللہ تعالیٰ اسے مومن کہتاہے، پھرحدیث شریف میں اس پر جوکفرکا اطلاق ہوا ہے وہ اس لیے کہ
[1] صحيح البخاري:كتاب الايمان’رقم الحديث:٤٨.