کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 377
چکی ہےاورجس سےبھی یہ ثابت ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی وترپڑھتے تھےتودورکعت وترکے بعدبیٹھ کرپڑھتے تھےاوران دورکعتوں میں سورۃ﴿إِذَا زُلْزِلَتِ ٱلْأَرْضُ﴾اور﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُونَ﴾تلاوت فرماتے تھے۔
ان احادیث سے بحمداللہ یہ اچھی طرح ثابت ہوگیا کہ وترکےبعد(خواہ رات کے اول حصہ میں عشاء کی نماز کے بعدخواہ رات کے آخری حصہ میں تہجد کے بعد’’دورکعت بیٹھ کرپڑھنابدعت نہیں ہے بلکہ مندوب ومسنون ہے کیونکہ سرورکائنات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپڑھناعلی الدوام ثابت ہے۔ مضمون ہذاسےقبل یہ تحریرکرچکا ہوں کہ نووی نے بھی ان احادیث کو دیکھ کروتر کے بعددورکتعیں پڑھنے کو جائز قراردیا ہے۔ اسی طرح حافظ ابن حزم جوبدعتیوں اورمقلدوں کے لیے شہاب ثاقب ہیں اورسنت کے اتباع کا شدیداہتمام کرتےہیں انہوں نے بھی محلی میں یہ تصریح کی ہے کہ وترکے بعدنفل جائز ہے اوردلیل حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاوترکے بعدبیٹھ کردورکعت پڑھنے کا فعل پیش کیا ہے۔ حالانکہ آپ کا یہ امرکہ وترکورات کی نماز کے آخرمیں رکھوانہوں نے بھی نقل کیا ہے ۔ قول اورفعل کے تعارض کے متعلق پہلے مضمون میں کھڑے ہوکرپینے سےمنع اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاکھڑے ہوکرپینے کا فعل پیش کرچکا ہوں یہاں پرمزیدوضاحت کی جاتی ہے۔
(١):......صحیح مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ:
((ان النبی صلي اللّٰه عليه وسلم زجرعن الشرب قائما.)) [1]
اوردوسری روایت میں صحیح مسلم یہ الفاظ ہیں:
((ان يشرب الرجل قائما.))
(٢):......اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےان الفاظ سےروایت مروی ہے۔
((لا يشربن احدكم قائمافمن نسي فليستقئ.))
[1] صحيح مسلم:كتاب الاشربة، باب في الشرب قائما-