کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 376
جالس.)) (مسنداحمد:ج٦،ص٢٥٥)
رجال السند:......امام احمد کا شیخ ازہربن القاسم ہےاوروہ صدوق ہے(تقریب)وہ ہشام سے لینے والے ہیں اوریہ ابن ابی عبداللہ الدستوائی ہیں جن کے متعلق تقریب میں لکھا ہے کہ ثقہ ثبت وقدرمی بالقدر(وہ ثقہ ہیں ضابطہ ہیں اوران پر قدریہ ہونے کا الزام ہےاس حدیث میں ان کے اس مذہب کوکوئی تقویت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے روایت میں ضعف آجائے۔ کمالایخفی.
ہشام کااستادقتادہ ہے یہ ابن دعامہ السدوسی ہےجوثقہ ثبت ہیں۔ (التقريب)لیکن وہ مدلس ہیں لیکن ان کی تدلیس کےخطرہ سےاس روایت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتاکیونکہ اس جیسی اورروایات اورصحابہ سےبغیراس علت کے موجودہیں، لہٰذا متابعات وشواہدمیں ایسی چیزمعتبرہوجاتی ہیں۔ (كماتقررفي مقره)قتاده کے بعدزرارہ آتا ہے اس کے متعلق پہلی حدیث کے رجال کے متعلق گزارش کرتے وقت عرض کیا جاچکا ہے اوروہ سعدبن ہشام سےروایت کرتے ہیں اس راوی کا حال بھی دوسری حدیث کی سندپرکلام کرتے وقت گزرچکااورسعداپنے باپ سےروایت کرتے ہیں وہ ہشام بن عامرہیں اورصحابی رضی اللہ عنہ ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اس حدیث کی اسناد بھی صالح ہے گوپہلی حدیث سےکچھ نازل ہےکیونکہ اس حدیث کی سند میں زرارۃ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکےدرمیان دوواسطے ہیں اوراس میں کوئی جرح نہیں ہے۔
متن الحدیث:......اس حدیث سےمعلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی وترپڑھتے تھے اس کے بعد دورکعت بیٹھ کرپڑھتے تھےاورآپ سے وتررات کے اول، اوسط اورآخرتینوں حصوں میں ثابت ہے لہٰذا اس حدیث سےبھی معلوم ہوا کہ وترکے بعدہمیشہ آپ کامعمول تھا کہ دورکعت بیٹھ کرپڑھاکرتے تھے۔
((و هذا هو المراد والمطلوب.))
اوریہ حدیث حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کی مؤیدہے جو پہلے مضمون میں تحریرکی جا