کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 375
توشارع علیہ السلام سے عشاء کے بعدوترکے پیچھے دوگانہ بیٹھ کرپڑھنا ثابت ہوگیا اوراس سےقبل ایک عام دلیل(حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے پہلے مقالہ میں پیش کرچکا ہوں)اب ان ادلہ واضحہ کے ہوتے ہوئے بھی اگرکوئی بدعت کا حکم لگاتا ہے توجواب میں ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ بدم گفتی وشورسندم عفافک اللہ نکوگفتی اس حدیث کے متن میں کوئی نکارت بھی نہیں ہے۔ (١):......اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے عشاء کی نماز کے بعدچاررکعتیں پڑھیں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ گوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثری طورپردورکعت پڑھاکرتے تھےلیکن بعض اوقات چاررکعتیں بھی پڑھاکرتے تھے۔ چنانچہ عشاءکے بعدان چاررکعات کاثبوت صحیح بخاری میں بھی موجودہے۔ یہ جوکہا کہ: ((ثم اوتربثلاث لايفصل فيهن.)) (٢):......یعنی پھر آپ تین رکعات وترادافرماتے تھے جن میں فصل نہیں کرتے تھے (یعنی اکٹھے پڑھتے تھےاوردوپرسلام نہیں پھیراکرتے تھے)یہ بات بھی غیرمعروف نہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےتین رکعات کی کیفیتوں میں سے احادیث صحیحہ میں یہ کیفیت بھی واردہوئی ہےیعنی تین رکعات ایک سلام سےپڑھنااوردرمیان میں تشہدکے لیے بھی نہ بیٹھنابلکہ تیسری رکعت میں بیٹھ کرتشہدوغیرہ پڑھ کرسلام پھیرتےتھے۔ (٣):......آپ کا اول اللیل میں عشاءکی نمازکے بعدوترپڑھنابھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے ۔ لہٰذا اس حدیث کے متن میں کوئی نکارت نہیں رہی۔ ایک اورحدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مردی ہے وہ بھی ملاحظہ فرماتے چلئے! ((حدثناعبداللّٰه حدثني ابي ثناازهر بن القاسم ثناهشام عن قتاده عن زرارة بن اوفي عن سعدبن هشام عن ابيه عن عائشه رضي اللّٰه عنهاان نبي صلي اللّٰه عليه وسلم كان اذا اوتر صلي ركعتين و هو