کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 373
نے حجت ہونے کی نفی کی ہے نہ کہ مطلق ثقاہت کی لہٰذا یہ راوی ثقہ ہے گوحجۃ نہیں ہے اورایسامحمل تلاش کرنا جس سے ائمہ حدیث کے اقوال کا آپس میں تعارض رفع ہوجائے حدامکان تک نہایت ضروری ہے۔ ہمارامذکورہ بالادعویٰ ہے ایک ہی راوی ثقہ بھی ہوسکتا ہے اورغیرحجت بھی پرذیل میں ائمہ فن کے اقوال ملاحظہ فرمائیں: (١):......میزان الاعتدال میں محمد بن اسحاق کے ترجمہ میں حافظ ذہبی امام یحیی بن معین سےنقل فرماتے ہیں کہ قال ابن معین’’ثقةوليس بحجة‘‘یعنی محمد بن اسحاق ثقہ توہیں لیکن حجت نہیں۔ (المیزان:ج٣، ص٤٦٩طبع جديد) آگے چل کرپھرلکھتے ہیں: ((قال ابوزرعة سألت يحيي بن معين عن ابن اسحاق هوحجة؟قال هوصدوق الحجة عبيداللّٰه بن عمروالاوزاعي وسعيدبن عبدالعزيز.)) (الميزان:ج٣’ص٤٧٢) (٢):......یعنی ابوزرعہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام یحییٰ بن معین سےپوچھاکہ کیا ابن اسحاق حجۃ ہیں توامام ابن معین نے جواب میں فرمایاکہ ابن اسحاق صدوق ہیں حجۃ توعبیداللہ بن عمراوزاعی، اورسعیدبن عبدالعزیزہیں۔ اس عبارت نے مزید وضاحت کردی کہ حجۃ کا لفظ ثقہ صدوق وغیرہماسےکافی ارفع واعلیٰ ہے۔ اس طرح سلیمان بن حیان ابوخالدالاحمرالکوفی کے ترجمۃ کے تحت لکھتے ہیں: ((روي عباس عن ابن معين’صدوق ليس بحجة))(الميزان:ج٢،ص ٣۰۰) یعنی عباس الدوری ابن معین سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان صدوق ہیں اورحجۃ نہیں ہیں۔ اورابن عدی نے بھی اسی بات کو بحال رکھا ہے جیسا کہ اپنے’’کامل‘‘میں فرماتے ہیں کہ ((هوكمايحييٰ، صدوق ليس بحجة.)) (الميزان:ج’ص٢۰۰) یعنی سلیمان الاحمرجیساکہ یحییٰ نے فرمایاصدوق ہیں اورحجۃ نہیں ہیں۔