کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 369
صورت میں ہے کہ یہ دورکعتیں آپ لمبی کرکے پڑھتے تھےجیسا کہ خود حدیث کا سیاق اس پرشاہد عدل ہے ورنہ ساری نماز دونوں رکعتیں پوری کی پوری بیٹھ کرپڑھنا اسی حدیث سے معلوم ہوتا ہے جس میں یہ بیان ہے کہ ان دورکعتوں کو خفیف کرتے تھے اوران میں سورت ﴿إِذَا زُلْزِلَتِ﴾اور﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ﴾پڑھاکرتے تھے اورہرذوانصاف اس کوتسلیم کرے گااوروہ حدیث حسن یا صحیح لغیرہ ہے، اسی طرح جوآگےہم عشاء کے بعدوترکےپیچھے دورکعتوں کو بیٹھ کراداکرنے والی حدیث پیش کریں گے تواس سے بھی اہل علم وانصاف یہی سمجھیں گے کہ یہ دونوں رکعتیں پوری کی پوری آپ نے بیٹھ کراداکیں۔ آخرمیں مولانانے جوحدیث حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سےنقل فرمائی ہےاس کےمتعلق اولاًتویہ گزارش ہے کہ مولانادوسروں کے دلائل پر فوراًبیجااعتراضات کردیتے ہیں اوران حدیثوں کی سندوں پرزبردستی جہالت اورضعف کاحکم صادرفردیتے ہیں لیکن خودجوبھی دلیل پیش کرتے ہیں اس کے متعلق اتنی کاوش بھی نہیں کرتے کہ یہ تو معلوم کریں کہ اس کےرواۃ کا کیا حال ہے۔ اس حدیث کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن ابی الموالی ہے جس کے متعلق حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں صدوق ربمااخطا۔ اب غورطلب امریہ ہے کہ مولانانےمیری پیش کردہ حدیث کی سندکے راوی ابوغالب کو ضعیف قراردیا حالانکہ ضعف کی وجہ کچھ بھی بیان نہ کی اگرضعف کی وجہ یہ تھی کہ ابوغالب کے ترجمہ میں یخطئی کالفظ ہے، تواس راوی عبدالرحمٰن کے ترجمہ میں ربمااخطاکے الفاظ ہیں جویخطئی سے زیادہ وزنی ہیں کمالایخفی اگرعبدالرحمن کے متعلق حافظ صاحب یہ فرماتے ہیں کہ صدوق(جو حسن الحدیث ہونے پر دال ہے)توابوغالب کے متعلق بھی حافظ صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ صدوق۔ پھریہ کتنی بےانصافی ہے کہ اپنی پیش کردہ روایات کے رواۃ سےاعراض کرتے ہیں اوراگردوسراکوئی ان کے خیال اوررائے کے برخلاف دلیل پیش کرے توفورااس کی تضعیف کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ فی الحقیقت وہ قطعاً ضعیف نہیں ہوتی۔