کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 368
پھر آگے چل کرمولانااس طرح گوہرافشانی کرتے ہیں: ’’پانچواں امرتنقیح طلب یہ تھا کہ ان نفلوں کو اگرکوئی تہجدکے وقت وتروں کے بعدپڑھےتواس طرح پڑھنے چاہئیں کہ بیٹھ کر شروع کرےجب قراۃ پوری ہوجائے توکھڑاہوجائے پھررکوع کرےاورسجدہ کرکے رکعت پوری کرےاسی طرح دوسری رکعت پڑھے اس طرح پڑھنے کا پوراثواب ملے گا۔ ‘‘ مولانا عجیب بات فرماتے ہیں پہلے تویہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وترکے بعددوسری نماز بالکل نہ پڑھی جائے کیونکہ یہ فرمان نبوی: ((اجعلوااخر صلوتكم بالليل وترا.))اوكماقال کے خلاف ہے اوروترکے بعددورکعت جوآپ نے پڑھی ہیں وہ آپ کا خاصہ تھا اورخاصہ امت کے لیے سنت نہیں ہے ۔ اورپھر اس جگہ یہ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی تہجد کے وقت پڑھے تواس طریقہ پڑھے توپوراثواب ملے گاجس کاصاف مطلب یہ ہے کہ تہجد کے وقت وتروں کے بعد وہ بھی دورکعت پڑھنے کے جوازکے قائل ہیں لیکن ان کے تحریرکردہ طریقہ پر لہٰذا بجاطورپریہ ان سےدریافت کیا جاسکتا ہے کہ اگروہ امت کے لیے سنت سے ہی نہیں تہجدپڑھی ہی کیوں جائیں اورپھران کا ثواب کیسے پوراملے گا۔ کیا سنت کی مخالفت میں بھی ثواب ملتا ہے؟بہرحال اس تناقض کو وہ خود ہی رفع کرسکتے ہیں ہم جیسے ہیچ مدان تواس کے رفع کرنے سےقاصر ہیں۔ بہرصورت اگروہ تہجد کے وقت وترکے بعددورکعتوں کے پڑھنے کو جائز اورکارثواب سمجھتے ہیں توباقی رہاعشاء کے بعد وتروں کے بعد کے پیچھے دورکعتوں کا اثبات سوہمارے ذمہ ہے ہم ان کو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث دکھادیتے ہیں پھر دیکھیں گے کہ وہ حق کوتسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ باقی ان دورکعتوں کے پڑھنے کی کیفیت کوجومولانانے بس ایک ہی طریقہ میں بندکردیا ہے وہ صحیح نہیں کیونکہ یہ کیفیت(یعنی مولاناکی بیان کردہ کیفیت)ان دورکعتوں کی اس