کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 367
اس وجہ پر بھی دلیل معقول توکوئی پیش نہیں فرمائی آخرسےمراداگروہ حدیث ہے جس میں یہ الفاظ ہیں کہ:
((فانتهي وتره الي الفجر.))
تواس کے متعلق پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس سے ان دورکعتوں کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ رات کے آخری حصہ میں ہوکررہ گیا تھایعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ابتدائی حصہ میں بھی وترپڑھتے رہے اوروسطی حصہ میں بھی لیکن اخیرعمرمیں آپ کا وتررات کے اخیرحصہ میں ہوتا تھا، اب کوئی اہل علم انصاف سےبتائے کہ اس سے آخران دورکعتوں کی نفی کیسے ہوتی ہے ؟اوراگراس وجہ سے مولانا کی مراد یہ ہے کہ جن حدیثوں سے ترک معلوم ہوتا ہے وہ آخری فعل ہے تو اس کے لیے دلیل کا مطالبہ ہے کہ یہ حدیثیں بعدکی ہیں۔
حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی حدیث جو مسلم شریف میں واردہے جس میں انہوں نے آپ کی آخرعمررات کی نماز کا جوذکرکیا ہے (حدیث کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ یہ اخیرکا فعل ہے)اس میں ان دورکعتوں کا بھی ذکر ہے اوران سب کو ملاکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانےاس کو نوشمارکیا ہے’’فتلك تسع‘‘اب آپ ہی فرمائیں کہ آپ کےاحتمال کوصحیح سمجھیں یاسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو اوردوسرے کسی مردصحابی کی بات زیادہ وزنی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ نماز(اکثرآپ گھرپرہی پڑھتے تھے۔ یہ وجہ بھی معقول ہےآگے بیان کرتے ہیں۔
(1):۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ نفل تہجدکے وقت پڑھے گئے ہیں، عشاءکے وقت پڑھنے کا کوئی ذکرہی نہیں ہے صرف ثوبان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ذکر ہے تو وہ مسافرکے بیان میں ہے الخ مولاناآپ جیسے محقق شہیرسےوفوق کل ذی علم علیم والاربانی ارشادمبارک قطعاًاوجھل نہیں ہونا چاہئے تھااگرجناب کو ایسی حدیث نہیں ملی تواس کا یہ مطلب نہیں کہ فی الواقع ایسی حدیث ہی موجود نہیں ہے بلکہ ایسی صریح حدیث بھی ہے جو مزیدتحقیق میں آرہی ہے لہٰذا یہ تیسری وجہ بھی’’لايسمن ولايغني من جوع‘‘ہے۔