کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 366
والانہیں۔ لہٰذا ان پر یہ فرض ہےکہ اپنے اس اضافےکوصراحتاً حدیث سےثابت کریں ورنہ وہ خودفیصلہ کریں کہ انہوں نے کس چیز کاارتکاب کیاہے۔
دراصل ان احادیث میں یہ بات ہے ہی نہیں کہ یہ ترک(دوگانہ)پہلے تھااب صاف بات تو(محدثین کے تطبیق کےطریقہ پر)یہ ہے کہ دونوں احادیث کو اپنی جگہ پررکھا جائےجن جن احادیث سےآپ کی ان دورکعتوں پرمداومت ہوتی ہے اس کو اغلب احوال پرمحمول کیا جائے اورترک والی حدیثوں کو جوازکے لیے گاہے گاہے چھوڑنے پر محمول کیا جائےآخر اس میں کون سی خرابی ہے؟آگے مولانا فرماتے ہیں:
’’یہ سنت بالکل نہیں ہے اس کی تین وجوہات ہیں۔ یہ کہ یہ خاصہ نبوی ہےاور خاصہ نبوی امت کے لیے سنت نہیں۔ ‘‘
مولانا صاحب خاصہ نبوی احتمالات سے ثابت نہیں ہوتااس کے لیے ٹھوس دلیل چاہئےورنہ بہت سی باتوں کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے اورپھر اس سے بہت سےکاہل اورسنت سےتغافل کرنے والوں کو ایک بہانہ ہاتھ آجائے گااوریہی کہیں گے کہ جناب یہ توخاصہ نبوی ہے ہم کو اس پر عمل کرنا نہیں ہے۔ باقی آگے چل کرجومولانا نے اس کی دلیل یہ دی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ:
((لست كاحدمنكم.))
تواس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم توثواب کے متعلق تھایعنی ثواب کے سلسلہ میں آپ جیسانہیں ہوں بلکہ مجھے بیٹھ کرنماز پڑھنے میں بھی پوراثواب ملتاہےاوریہ بات مختلف فیہ ہے ہی نہیں بلکہ ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ بیٹھ کرپڑھنے کا ثواب آدھاہی ہےلیکن آدھے ثواب کو اختیارصرف اس لیے کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے لہٰذا یہ دلیل صحیح نہیں رہی۔ آگےپھرقمطرازہیں رہی یہ کہ یہ دوتین دفعہ کا فعل ہے پھراس کے خلاف عمل ہوتا رہا ہے کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آخرمیں وترپڑھتے رہے ہیں جس کے بعدکوئی نمازنہیں پڑھی۔ ‘‘