کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 365
مولانا نے جو آخری قسط میں تحریرفرمایاہےکہ:
اوران(دوگانہ)کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ پڑھتے تھے یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوٹ باندھنا ہے جس کی سزابڑی سخت ہے۔ ‘‘
اس عبارت میں انہوں نے اشارۃً گویامجھے اس کا متہم بنایاہے کہ میں نے ذات اقدس حضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوٹ باندھاہےاس کے متعلق میں کیا عرض کروں دوسروں پربیجاالزامات تھوپنااوران کی طرف ناکردہ گناہ منسوب کرنایہ مولاناکی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے۔
چنانچہ گزشتہ صفحات میں مولاناکی گل افشانیاں ذکرکرچکاہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ بہترجانتا ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پرقطعاًجھوٹ نہیں باندھامحض ایک بات صحیح سمجھ میں آگئی تھی(اوراب بھی اس کو صحیح سمجھ رہا ہوں)وہ عرض کردی تھی اوراس کے باوجود بھی اگروہ مجھے ایسے عظیم گناہ کامرتکب سمجھ رہے ہوں گے تواس کا فیصلہ ان شاء اللہ رب العالمین، مالک یوالدین کی عدالت میں ہوگاپھروہاں ان کو جواب دہ ہونا پڑے گا، میں اس سے مزید اس پر کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا۔
آگے مولانافرماتے ہیں کہ:
’’میں کہتا ہوں کہ پھروتروں کے بعدیہ دورکعتیں چھوڑدی گئیں صرف وترپرنمازکوختم کیاگیا۔ ‘‘
میں پوچھتا ہوں کہ ایسی حدیث کس کتاب میں ہےکہ پھرآپ نے ان دورکعتوں کوچھوڑدیاتھا؟ایسی حدیث ابھی تک توآپ نے پیش فرمائی ہی نہیں صرف ایسی احادیث پیش فرمائی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند بارآپ نے ان کو نہیں پڑھا تھالیکن یہ ترک بعدتھا یا ابتدامیں اوراس کے بعد پھر ہمیشہ دورکعت پرھتے رہتے تھے، اس کے متعلق ان احادیث میں کوئی تعرض نہیں یہ’’پھروتروں کے بعدالخ‘‘مولاناکی ہی حاشیہ آرائی ہےوہ دوسروں کو توایساالزام دینے سےبھی نہیں گھبراتےکہ وہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرجھوت باندھتے ہیں لیکن خودایسی حاشیہ آرائیاں اپنی طرف سے احادیث میں کردیتے ہیں اوران کو کوئی کہنے