کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 364
جوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسےمسنداحمد کی روایت نقل فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ :
((فانتهي وتره الي السحر.))
اس سے بھی ان کی مزعومہ دعوی کا ثبوت ملتاہے اس کاواضح اورصاف مطلب یہ ہے کہ گوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے اول حصہ اوراوسط حصہ میں بھی وترپڑھاہے لیکن آخرالامرآپ کا وتررات کے آخری حصہ میں منتہی ہوگیا کیونکہ سحرکے معنی آخراللیل ہے نہ کہ فجرکے بعدوالاوقت پھراس سے یہ نتیجہ کیسے نکلاکہ سحرکے وقت وترکے بعدآپ دوگانہ نہیں پڑھتے تھے؟یہ دورکعتیں وترکے ساتھ ہی کہیں اسی وجہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایاتھا کہ:
((فتلك تسع وتلك عشرة.))
جیساکہ گزشتہ صفحات میں مسلم شریف سے یہ روایت نقل کی جاچکی ہے تواب مطلب یہ ہوا کہ اخیر عمرمیں آپ وترکو رات کے آخری حصہ میں ادافرماتے تھے اوریہ دورکعتیں بھی ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔ لہٰذا ہم یہ سمجھنے سےقطعی قاصرہیں کہ یہ حدیث ان کے مفروضہ پرکیسے دلیل بن سکتی ہے ۔ پھرمولانا نے جواحادیث پیش کی ہیں ان سے زیادہ سےزیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےچندباروترکے بعددوگانہ رکعت بیٹھ کرنہیں پڑھیں اس سے ان کی مواظبت اورمداومت پرحرف نہیں آتاکیونکہ نوافل ومندوبات میں مداومت عرفی ہوتی ہے جواکثریت کے مترادف ہے ورنہ اگرکسی فعل سےچندبارکومستثنی کرنے سےمواظبت بالکل نہیں رہتی توپھرمولانا سوائے فرائض کے دوسرے اکثر افعال میں مواظبت ثابت نہیں کرسکتے اوراس طرح سلف سےخلف تک جوکسی فعل میں مواظبت ومداومت کاذکرکرتے آئے ہیں وہ سراسربے معنی ہوکررہ جاتاہے۔
ایسادعوی(ان دورکعتوں کے متعلق)نہ توہم نے کیا ہے اورنہ ہی کرسکتے ہیں ہمارادعویٰ تواکثریت کے بارہ میں ہے اوراس کو ہم مواظبت یا ہمیشگی سےتعبیرکرتے ہیں کیونکہ ہرکام میں کتنی مداومت بھی کی جائےلیکن پھر بھی اس سے چندمستثنیات ہوہی جاتے ہیں۔ اورمولانا نے اس (اکثریت)کی نفی پر کوئی دلیل ٹھوس ومعقول ابھی تک پیش نہیں فرمائی باقی