کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 363
کروآپ نے’’قبل الفجر‘‘کےالفاظ فرمائے ہیں’’قبيل الفجر‘‘نہیں فرمایاپھراس سےیہ بات کہاں سے نکلتی ہے کہ اب وتروں کے بعد دوگانہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کیا قبل الفجراس بات کو مستلزم ہے کہ وتربالکل ہی فجرسےتین یا چارمنٹ ہی پہلے پڑھ لیا جائے آخریہ مطلب دلالت ثلاثہ میں سےکس دلالت پر مبنی ہے؟
اس ارشادگرامی کا واضح مطلب یہی ہے کہ وتر کو فجر سے پہلے پڑھ لیا جائے تاکہ وتروں کو نہ پڑھناپڑے ہاں اگرنیندیاکسی اوروجہ سے صبح ہوجائے توپھر بھی پڑھ لینا چاہیئے لیکن اس صورت میں پھر وترکےبعددورکعت نہ پڑھنا اس وجہ سے ہے کہ اب رات تورہی ہی نہیں اورفجرکے بعدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دورکعت(سنت الفجر)کے سوائے کچھ نہیں پڑھتے تھے اس لیے وہ دورکعتیں نہیں پڑھی جائیں گی صرف وتر ہی پڑھا جائے گاکیونکہ اس کی اجازت دوسری احادیث سے آچکی ہے لیکن اس سے یہ بات کہاں نکلتی ہے کہ وترصبح سےبہت پہلےبھی اگر پڑھ لیا جائے تواس صورت میں بھی اس کے بعد دوگانہ ادانہ کرے اس قسم کا استدلال مولانا کی فہم مبارک کا ایجاد ہے۔
آگے پھراسی کالم میں لکھتے ہیں:
((عن زيدبن اسلم قال قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليه وسلم من نام عن وتره فليصل اذاصبح.)) (رواه الترمذي)
مولانازید بن اسلم توتبع تابعی ہیں ان کا یہ کہنا کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے درست ہوسکتا ہے یہ تو تابعی بھی نہیں کہ یہ حدیث مرسل ہوتی(گووہ بھی محققین کے نزدیک ضعیف ہے)لیکن یہ تومنقطع ہے ایسے منقطعات کو معرض استدلال میں لانا آپ کو مبارک ہوتاہم اس سے بھی ان کا مزعومہ مقصد پورانہیں ہوتا۔ یعنی ایک آدمی رات کو نیندکی وجہ سے وترپڑھ نہیں سکااس لیے صبح کو پڑھ لے آخر اس سے یہ نتیجہ کیسے نکلتا ہے کہ اگر وہ رات کو پڑھے تواس کے بعد دوگانہ ادا نہ کرے۔ کیا مولانا وترکوہمیشہ صبح کے بعداداکرنے کے قائل ہیں؟اگرنہیں توپھران جیسے دلائل کو پیش کرنے کی زحمت آخرکیوں اٹھاتے ہیں ۔ اسی طرح مولانانے