کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 362
پھراس کےمتن سےدوام کی دلیل لینااوربھی عجیب بات ہے گویاا س کا مطلب یہ ہواکہ ہمیشہ ہی وترفجرکی اذان کے وقت پڑھاکرتےتھےجوقطعاًغلط ہے اس سے تویہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ وترہمیشہ دن میں پڑھتے تھے رات کو نہیں پڑھتے تھے کیونکہ فجرکے بعدشرعی رات نہیں ہےہاں اگرمطلب یہ ہوکہ آپ جب کبھی رات کو کسی وجہ سے وترپڑھ نہیں لیتے تھے اورصبح ہوجاتی تھی تواذان کے وقت بھی پڑھ لیتے تھے توصحیح جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی روایت سے پتہ چلتا ہے لیکن اس صورت میں مولانا کا یہ الزام جوانہوں نے ہمیں کان کی وجہ سے دیا ہے ھباءًمنثوراً بن جائے گا، غورفرمائیں! پھر آگے اسی پرچہ تنظیم اہلحدیث میں کالم ٢میں رقمطراز ہیں: ’’ابوداودالطیالسی کےاسی صفحہ میں ہے: ((عن ابي سعيد قال قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اوتروا و اقبل الفجر......)) [1] یہ حدیث قولی ہے جس میں صبح سے پہلے وترپڑھنے کا ارشادہے جس میں وتروں کےبعددوگانہ پڑھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ‘‘ اس کے متعلق اولا تویہ گزارش ہے کہ یہ حدیث ابوسعید کی ابوداودطیالسی میں اسی صفحہ میں تونہیں ہے اورنہ ہی اس صفحہ کے پہلے صفحہ میں اورنہ اس کے بعدکےصفحہ میں موجودہےاورمولانا نے یہ خیال نہیں فرمایاکہ اس صفحہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مسانیدذکرہورہی ہیں۔ لہٰذا وہاں حضرت ابوسعید کی روایت کا آخرکون ساموقع تھا غالبایہ عجلت میں لکھ گئے ہیں اورچونکہ اپنے تحریرکئے ہوئے سطورکو حرف آخرہی سمجھتے ہیں لہٰذا اس پر نظرثانی کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔ ثانیاً :اس حدیث میں وہ بات تو ہے ہی نہیں جو مولانا نے اس میں حاشیہ کے طورپرلگادی ہے۔ اس میں تومحض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادمبارک ہے کہ فجرسےپہلے وترپڑھ لیا
[1] مسندابوداودطيالسي جلد2، صفحه٥٥٨، رقم الحديث:٢٢٧٧، ط:بيروت