کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 361
((كان يوترعندالاذان ويصلي ركعتين عندالاقامة.)) [1] ’’پھرترجمہ لکھا ہے اوراس کے بعدلکھتے ہیں کہ اس حدیث میں((كان يوتر))دوام پردلالت کرتا ہے جس سے پیرجھنڈاصاحب کوکوئی سبیل انکارنہیں ہے۔ ‘‘ میں حیران ہوں کہ مولاناجیسے علماء جن کو محقق شہیرجیسے القاب سے یادکیا جاتا ہے آخرایسے واہی دلائل پیش کرنے کی جرات کیسے کرتے ہیں ۔ پھر مولاناکوغالباًیہ یادنہیں رہا کہ وہ پہلے تحریرفرماچکے ہیں کہ میں نے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جس میں مولانانے مدلسین کی روایات سے استدلال کیا ہو۔ حالانکہ اس پیش کردہ روایت میں ابواسحاق سبیعی ہیں جو مدلسین میں سے ہیں اوران کی تدلیس مرتبہ ثالثہ میں سے ہے اورروایت بھی عن سے کرتے ہیں گویاجس مضمون میں مجھ پر اعتراض کیا اورمیرے لکھنے کو محض الزام قراردیا: ’’فسبحان من لايضل ولاينسي.‘‘ اورپھراس کی سندمیں ابواسحاق کاشیخ حارث اعورہے جوضعیف بلکہ کذاب ہے اگرچہ طبع میں حارث کی جگہ پر ابوالحارث چھاگیاہےجوغلط ہےابواسحاق کی روایت حارث اعورسے ہی مشہورہےورنہ مولانابتادیں کہ یہ ابوالحارث کون ہے؟بہرحال نتیجہ صاف ہے اگریہ حارث ہےتویہ ضعیف ہے۔ لہٰذا سندضعیف ہوگئی اوراگرابوالحارث ہے جیساکہ مطبوع میں موجودہے توپھریہ کوئی مجہول راوی ہیں پھربھی یہ روایت ضعیف اورناقابل استدلال بن جاتی ہے، لہٰذا اس روایت کو لے کرمعرض استدلال میں آنامولاناکی فقاہت اوران کی محققیت کا ہی حصہ ہے۔ ادھرخودتواسی ضعاف احادیث پیش فرمادیتے ہیں اوروہ بھی بے دھڑک لیکن ہم اگرکوئی حدیث صحیح یا حسن بھی پیش کرنے کی جرات کرتے ہیں جو ان کے مسلک کے خلاف ہوتوفوراًاس کی تضعیف پرآمادہ ہوجاتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: ہم آہ بھی کرتے ہیں توہوجاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں توچرچانہیں ہوتا
[1] مسنداحمدابوداؤدطيالسي جلد١، صفحه ٧٨، رقم الحديث:١٢٨، ط: بيروت