کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 359
’’کیونکہ جس کے نام کاکوئی مستقل پتہ نہیں تواس کے حالات سے کیا آگاہی ہوسکتی ہے۔ ‘‘ یہ مولانا کی عجیب منطق ہے کہ جس راوی کے نام میں اختلاف ہواس کے حالات بھی معلوم نہیں ہوسکتے۔ کیا مولانا اس حقیقت سےآگاہ نہیں کہ صحیحین میں بھی ایسے رواۃ پائے جاتے ہیں جن کے ناموں میں کثیر اختلاف ہے لیکن وہ اپنی کنیتوں سےمشہورہیں توکیا اس وجہ سے مولانا صحیحین کے رواۃ کے متعلق بھی یہی ارشادفرمائیں گے کہ چونکہ ان کے نام کا بھی پتہ نہیں لہٰذا ان کے حالات کیسے معلوم ہوسکتے ہیں اورنتیجہ یہ کہ یہ رواۃ مجہول العدالت ٹھہرے علی زعم مولانا الحصاروی کیا مجھے ان رواۃ کے ذکرکرنے کی بھی ضرورت ہے؟ درحقیقت بہت رواۃ کسی نہ کسی وجہ سے اپنی کنیت سے مشہورہوجاتے ہیں بعدمیں رفتہ رفتہ اختلاف پڑجاتا ہے دیکھئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سب کے سب عدول ہیں لیکن بعض صحابہ اپنی کنیتوں سےمشہورہوگئے تھےبعدمیں ان کے ناموں میں شدید اختلاف ہوگیا۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ تہذیب التہذیب میں سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ترجمہ کی ابتدامیں تحریرفرماتے ہیں: ((واختلف في اسمه واسم ابيه اختلافاكثيرا.)) (تهذيب التهذيب:ج:١٢) کم ازکم میری نظرسےتومتقدمین خواہ متاخرین میں سے کسی کا بھی ایسا قول نہیں گزراکہ جس راوی کے نام میں اختلاف ہووہ مجہول العدالت بن جاتا ہے۔ یہ مولاناکی ہی طبع زادایجادہے۔ واللّٰه الموفق باقی مولانا نے جو یہ لکھا ہے کہ: ’’اب اگردورکعت بیٹھ کرپڑھی جائیں توترنمازکے آخرمیں نہیں ہوسکتے۔ ‘‘ (تنظیم اہلحدیث مجریہ1٤صفر١٣٨٩ھ صفحہ٨كالم١)