کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 358
مثله، فاين هذا القول من قول ابن حبان الحساف المتهورفي عارم فقال اختلط في آخرعمره وتغيرحتي كان لايدري مايحدث به فوقع في حديثه المناكيرالكثيرة فيهنب التنكب عن حديثه فيمارواه المتاخرون فاذا لم يعلم هذامن هذاترك الكل ولايحتج بشئ منها(قلت)ولم يقدرابن حبان ان يسوق له حديثامنكرا فاين مازعم؟))
(ميزان الاعتدال جلد٤، صفحه٨، ط:مكتبه الاثريه)
ان عبارات سے آپ معلوم کرسکتے ہیں کہ ابن حبان صحیحین کے رواۃ پر بھی بسااوقات ایسی جرح کرجاتے ہیں جوقطعاًصحیح نہیں اسی وجہ سے نقادفن نے ان کی جرح پرردکی اوراس کی تضعیف کودوسرے جہابذفن کی توثیق کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں دیا۔
یہ تومیں نے تین مثالیں ذکر کی ہیں اگراوربھی مثالیں دیکھنی ہوں توفن رجال کی کتب کومطالعہ فرمائیں بہت سی مثالیں اوربھی مل جائیں گی۔
لہٰذا چونکہ زیربحث راوی (ابوغالب)کو دارقطنی ابن معین وغیرہماجیسے نقادجیادنے ثقہ قراردیا ہے، لہٰذا ابن حبان جو کہ مسرف ہے اس کی جرح مقبول نہیں ہوگی کیونکہ یہ اصول حدیث کے معیاری کتب میں طے ہوچکا ہے کہ جس راوی کی توثیق ائمہ فن کے لیے ثابت ہوچکی ہواس پر اس جارح کی جرح مقبول نہیں ہوگی جورجال کی جرح میں متعنت ہوجیساکہ ابن حبان خصوصاً کوئی دلیل بھی اپنی جرح میں پیش نہ کی ہو، جیسا کہ اس مسئلہ میں ہے اب آپ انصاف سے کہیں کہ مولانا حصاروی کا یہ تحریرفرماناکہ اس کی ثقاہت کتب اسماء رجال میں نہیں پائی جاتی کہاں تک صحیح ہے؟کیا مولاناکی نظروں سے یہ اسماء الرجال کی کتب گزری؟
((فان كنت لاتدري فتلك مصيبة.ان كنت تدري فالمصيبة اعظم.))
آگے پھر مولانالکھتے ہیں: