کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 356
بطوله وهومعروف به ولم اري احاديثه حديثامنكراوارجوانه لاباس به وحسنه الترمذي بعض احاديثه وصح بعضهاقلت وقال ابن حبان لايجوزالاحتجاج به الافيماوافق الثقات وقال ابن سعدكان ضعيفاوقال البرقاني عن الدارقطني ابوغالب حزوربصري يعتبربه ووثقه موسي بن هارون كمامضي في الذي قبله انتهي.)) (تهذيب ج١٢، ص:٢١٦) اس اقتباس سےیہ معلوم ہواکہ اس راوی’’ابوغالب‘‘کوامام یحییٰ بن معین، دارقطنی، ابن عدی، موسی بن ہارون اورترمذی نے ثقہ قراردیاہے۔ اورابوحاتم، نسائی، ابن حبان اورابن سعدنے غیرقوی اورضعیف قراردیاہےلیکن نسائی، ابوحاتم اورابن سعدکوتضعیف اس لیے قابل قبول نہیں کہ ان کی جرح غیر مفسرہےاوراصول حدیث میں یہ بات مقررہوچکی ہے کہ جرح مبہم غیرمفسرراوی کے متعلق مقبول نہیں ہوگی جس کی عدالت وثقات دوسرے ماہرفن سےثابت ہوچکی ہواوریہی معاملہ اس جگہ پرہے کیونکہ ابوغالب کی ثقاہت اس فن کے امام یحیی بن معین سےمنقول ہے اس کے علاوہ امام دارقطنی اورابن عدی وغیرہماسےبھی عدالت ثابت ہوچکی ہے۔ لہٰذا ان کے مقابلہ میں ابوحاتم یانسائی کی تضیعف تب ہی قابل قبول ہوتی جب وہ مفسرہوتی۔ باقی رہی ابن حبان کی تضعیف تواول تووہ غیرمفسرہے ، لہٰذا قابل قبول نہیں۔ ثانیاًاس نے لکھا ہے کہ’’لايجوزالاحتجاج به الافيماوافق الثقات‘‘ كامفادیہی نکلتاہےجوحافظ صاحب نے تقریب میں لکھا ہے کہ ’’صدوق يخطئي‘‘اورحافظ صاحب نےتقریب کےابتدامیں یہ تحریرفرمایاہےکہ: ((اني احكم علي كل شخص منهم بحكم يشمل اصح ماقيل فيه واعدل ماوصف به بالخص عبارة واخلص اشارة.))