کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 354
میں یہی ہشام بن حسان ہیں اورمحمد بن سیرین سے عن کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
مولانا نے یہ تولکھ دیا کہ ورجالہ ثقات لیکن یہ دیکھنا گوارانہیں کیا کہ رجال کے ثقہ ہونے کے باوجودبھی کوئی علت ہوسکتی ہے جو حدیث کو ضعیف کردیتی ہے ۔ بہرحال اس حدیث کی سند میں مدلس ہے اورسماع کی تصریح نہیں کی ، تاہم مولانا اس کو دلیل میں پیش کرتے ہیں، پھر بھی فرماتے ہیں کہ یہ میں نے ان پر الزام لگایا ہے ۔ مولانا اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بندہ حقیر کو ایسی بدخصلت سے اپنے فضل وکرم سے محفوظ رکھا ہے یہ جناب والا کی یہ بابرکت عادت ہے کہ دوسروں پربلاوجہ خرافات فرماتے ہیں۔
یہ یادرہے کہ میں نے جو یہ مثالیں پیش کی ہیں ان سے مراد وہ حدیثیں ہیں جو ان کتابوں میں مذکورہیں جن کا نام مولانا نے تحریرفرمایاہے۔ مثلاًمثال اول میں ابن حبان کی صحیح اوردوسرے میں ابن ماجہ ودارقطنی اس لیے یہ قطعاً مناسب نہ ہوگا اگروہ کسی دوسری کتاب سے ایسی ہی حدیث نکال کربیجاطول کلام پر آمادہ ہوجائیں۔ مولانامیں نے تواپنی بات کا ثبوت دے دیااب وہ محض الزام نہیں رہی۔
اب آپ اپنے چھوٹے الزامات کا ثبوت پیش کریں۔ میرے دلائل میں سے دوسری دلیل پربحث کرتے ہوئے مولانالکھتے ہیں:
’’اس کے علاوہ وہ مجہول العدالت ہے اس کی ثقات کتب اسماء الرجال میں پائی نہیں گئی۔‘‘ (تنظیم اہلحدیث مجریہ ٧صفر١٣٨٨ كالم٢)
میں حیران ہوں کہ مولانا جیسامتبحرعالم ایسی بات کیسے تحریر کرگیا جہاں تک میراخیال ہے میں تویقیناً مولاناکوایساتصورنہیں کرتاکہ وہ علم اسماءالرجال سےایسے ناواقف ہوں گےپس اگرمیرا یہ خیال صحیح ہے تومولاناکوجانتے ہوئے بھی ایسی عبارت لکھ دینا قطعاًمناسب نہیں لیکن اگرخدانخواستہ وہ اس علم سےپوری طرح واقف نہیں ہیں تواس صورت میں انہیں اس پرقلم اٹھانے کابھی یقیناًحق نہیں تھا۔
اولاتوگزارش یہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے تقریب التہذیب میں ابوغالب کے