کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 351
مجھ پرکیوں لگادیاہے۔ پھرجناب نےجوننگےپاؤں نمازپڑھنےکےمتعلق لکھاہےتواس کےمتعلق یہ گزارش ہےکہ میں ننگےپاؤں نماززپڑھتاضرورہوں لیکن جوتی پہن کرپڑھنےکوناجائزنہیں کہتابلکہ اس عمل کومسنون جانتاہوں یعنی حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سمجھتاہوں اورایسےمواقع بھی گزرےہیں کہ میں نےجوتی کےساتھ نمازپڑھی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کوبہترجانتاہےاوروہ اس پرگواہ ہےباقی رہااس پرہمیشگی نہ کرناتواس کےلیےاوردلائل پس جن کےتذکرہ کایہ موقع نہیں اورنہ ہی یہ زیربحث ہے۔ اسی طرح مولاناکایہ الزام بھی درست نہیں کہ ہم ہمیشہ ننگےسرنمازپڑھتےہیں مولاناکےپاس اس کاکوئی ثبوت نہیں۔ بالآخران چیزوں کےذکرسےجناب کاکیامطلب ہےمعلوم ہوتاہےکہ جناب دوسروں کی توجہ اصل مسئلہ سےہٹاکردوسری باتوں میں الجھاناچاہتےہیں تاکہ ان باتوں میں کھوکراصلی بات جوزیربحث ہےوہ ختم ہوجائے، لیکن اہل علم وانصاف یقیناً آپ کی باتوں کوسمجھ جائیں گے۔ واللہ! میں توسمجھتابھی نہیں ہوں کہ آخرمجھ سےمولاناکےجناب میں کیاگستاخی ہوگئی ہےجس کی وجہ سےایسےایسےالزام لگانےسےبھی پرہیزنہیں کرتےہاں یہ قصورضرورہواکہ میں نےان کےمضمون پرتعاقب کیاتھالیکن اس تعاقب میں’’واللّٰه علي مااقول شهيد‘‘ کوئی بری نیت نہیں تھی اورنہ ہی مولاناکی شان کوکم کرنامقصودتھابلکہ محض جوبات سمجھ میں آئی اس کااظہارمطلوب تھا۔ آگےاگرمولاناکواس میں غلطیاں نظرآگئیں توان کااظہاروہ شائستہ الفاظ میں بھی کرسکتےتھےاورمیرےوہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ مولاناجیسی ہستی ایسی زبان استعمال کرنےپرآمادہ ہوگی اوران جیساعالم ایسےالزام لگائے، یہ میں نےخواب میں بھی نہیں خیال کیاتھاشایدمولانااسی خوش فہمی میں مبتلاہیں کہ جووہ تحریرفرماتےہیں بس اسی کوہی حرف آخرتسلیم کرلیاجائےاوراس کےمالہ وماعلیہ کےاظہارکی جرات بھی نہ کی جائے۔