کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 349
کرو، ایسا نہ ہوکہ نادانی میں کسی قوم کو ایذاء پہنچادوپھراپنے کیےپرپشیمانی اٹھاو۔ ‘‘
اورپھر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادگرامی کہ:
((كفي بالمرءكذباان يحدث بكل ماسمع.))
ان کےنظروں سےنہیں گذرا؟اورسنی سنائی بات پراعتمادکرکےدوسروں کومتہم کرنایہ اہلحدیث جماعت میں سےصرف مولاناحصاروی صاحب’’ہمارےمبلغ علم کی حدتک‘‘کےحصہ میں آیاہے۔
جی مولانا! ہم نےیہ دعویٰ کب کیاہےکہ ہم آل رسول ہیں، لہٰذاہم کوپوراثواب ملتاہےبلکہ ہم تویہ کہتےہیں کہ اللہ تعالیٰ میدان حشرمیں اگرہمیں جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کےادنیٰ درجہ کےمومنوں میں شامل فرمادےتویہ ہمارےلیےانتہائی خوش نصیبی ہوگی، ہم جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کےسواکسی کوبھی یقینی طورپرناجی نہیں کہتے، صرف حسن ظن ہی ہوتاہےجوایک مسلم کےلیےرکھناپڑتاہے۔
اب آپ نےجوبلاوجہ یہ افتراءپردازی کی ہےتویادرکھئےقیامت کےدن اللہ تعالیٰ کےسامنےمیراہاتھ ہوگااورجناب کی دامن اورمیں رب العالمین کی عدالت میں یہ مقدمہ دائرکروں گاکہ حضرت مولاناسےدریافت فرمائیےکہ کیونکرہم پرایساالزام تھوپاتھا۔ بس پھروہیں جواب دہ ہونااس سے زائدمیں نہیں لکھ سکتا، باقی رہاثواب تومیں نےیہ بات اپنےمضمون میں بھی نہیں لکھی تھی کہ یقیناً وتر کے بعددوگانہ بیٹھ کرپڑھنےوالےکوپوراثواب ملےگابلکہ اس کےبرعکس آخرمیں میں نےیہ لکھاتھاکہ یہ توبیٹھ کردوگانہ اداکرنےسےآدھاثواب ملتاہے، لیکن اگرکچھ بھی نہ ملتاتب بھی ہمارےلیےیہی کافی وافی ہےکہ ہم نےجناب حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اداکی، اب ثواب کامعاملہ اللہ تعالیٰ کےہاتھ ہےوہ جوچاہےدے، ہمیں صرف یہ دیکھناہےکہ یہ کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہےاورہراہلحدیث سنت پرعمل کرنا اپناایمان سمجھتاہے۔
ایک اورمثال مولانا کےافتراءپردازی اوربیجااتہامات کاملاحظہ فرمائیے! تنظیم اہلحدیث