کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 347
ہی نہیں اورواللہ میں اس کے اوپرقلم ہرگزہرگزنہ اٹھاتالیکن چنداحباب کی غلط فہمیوں کے دورکرنے کے لیے مجھے مجبوراًاس پرکچھ لکھناپڑرہاہے کیونکہ جوحدیث کا علم کچھ زیادہ نہیں رکھتےوہ شایدمولاناصاحب کے مضمون ہذا سےاورمیری دانستہ خاموشی سے یہی اندازہ فرمائیں گےکہ غالبا میں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے اورمولاناصاحب کی تنقید واقعی صحیح اوروقیع ہے یہی وجہ ہے کہ میں اس پر خامہ فرسائی کرنے کے لیے مجبورہواہوں۔
ویسے اس مضمون کی تیسری قسط مولاناصاحب کی تنقید سےبھی پہلے میں دفترالاعتصام کوارسال کرچکاتھالیکن حضرت علامہ احسان الٰہی صاحب ایڈیٹرالاعتصام کے مشورہ سےاس قسط کواشاعت سےبازرکھالیکن جب مولاناکی یہ تنقید دیکھی تومجبوراً اس کی اشاعت کے لیےایڈیٹرصاحب موصوف کولکھااورانہوں نے وعدہ فرمادیا کہ جونہی مولاناصاحب کا مضمون پوراہوگاتواس کوشائع کردیاجائے گا۔ اللہ تعالیٰ بہترجانتا ہے کہ میں مولاناحصاروی کا بہت معتقدتھااوران کے علمی نکات اورمعقول ابحاث کی دل سے قدرکرتا تھالیکن ان کے اس مضمون کی تیسری قسط کے چند سطورنے میری سب خوش فہمیوں کو ریزہ ریزہ کردیامیں نے یہ کبھی خواب میں بھی نہیں سوچاتھاکہ مولانامحترم صاحب بلاوجہ ذاتیات پر بھی حملہ آورہوتے ہیں اوردوسروں پرغلط الزمات جوڑنے کے بھی عادی ہیں۔ ذیل میں ان کے مضمون کی تیسری قسط سے’’جوتنظیم اہلحدیث١٦محرم کےصفحہ٦پرشائع ہوئی ہے‘‘ ایک اقتباس نقل کرتا ہوں وہ ملاحظہ فرماکرمولاناکے اندازطبع کی داددیں۔ مضمون کے تیسرے کالم میں یہ عبارت ہے:
’’پیرجھنڈاموجودہ پیروں کی طرح آل رسل کہلاکریہ فخرکرتے ہیں کہ ہم کوثواب پوراملتا ہے۔ ‘‘
ایں خیال است ومحال است وجنون
اس سے آگے بھی بہت کچھ گل افشانی فرمائی ہے لیکن اس سے تعرض کی ضرورت محسوس نہیں کرنا،کیونکہ ان کاہرلفظ اورتحریر کی ہرسطراللہ تعالیٰ کی کتاب میں محفوظ ہے﴿مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾اوروہی رب العالمین اورمالک یوالدین ان سے