کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 345
چیز واردنہیں ہوتی کیونکہ یہ دورکعت کوئی مستقل اورالگ نمازنہیں کہ جس کی وجہ سے یہ اس حکم کے متعارض ہوجائے، ورنہ اگراس کووترکے بعداس کے ساتھ کی نماز قراردیا جائے جس طرح کہ عبداللہ بن مساحق نے کہا ہے۔ (ان کا قول گزشتہ صفحات میں آچکا ہے)یعنی یہ دورکعتیں وتروں کے لیے ایک قسم کی تتمیم کا کام دیتی ہیں توپھریہ اعتراض واردنہیں ہوگااورجوحدیثیں ہم نے اوپرلکھی ہیں ان سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دورکعتوں پر مواظبت معلوم ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ دوگانہ وترکے بعدبیٹھ کرپڑھنامشروع ومسنون ہوا نہ کہ بدعت ونام نہاداہلحدیثوں کا فعل باقی رہا مولاناکایہ فرماناکہ بیٹھ کرپڑھنے سےآدھاثواب ملتا ہے اس کےمتعلق میری یہ گزارش ہے کہ اہلحدیث کہ کرائے کے اجیرنہیں ہیں کہ جہاں مزدوری زیادہ ملےادھرچلےگئےجہاں تک میں سمجھتا ہوں اہلحدیث کا مطمع نظر،منتہی بصراوران کی نسب آرزوؤں کی تکمیل اسی میں ہے کہ ان کو سرورکونین سیدالبشرجناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاسوہ حسنہ کا اتباع حاصل ہوجائے اگران کے نامہ اعمال میں یہ ثبت ہوجائے کہ انہوں نے حبیب خدا احمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کی توبس ان کے لیے یہی کافی ہے باقی رہاآدھاثواب تویہ توآدھاہےلیکن اگران کو کچھ بھی نہ ملےتب بھی ان کے لیے یہی کافی ہے کہ انہوں نے اس ذات اقدس کی سنت کا اتباع کیا جس کےمتعلق اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ﴾ (آل عمران:٣١) اہلحدیث کوتوسنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سےشغف ہے۔ آخرمیں میں حضرت مولانامحترم حصاروی صاحب کی خدمت میں باادب یہ گزارش کرتا ہوں کہ ہر ایک کے لیے تحقیق کامیدان وسیع کھلاہوا ہے۔ ا س لیے جو تحقیق بھی آں محترم کو صحیح نظرآئے بلاخوف لومۃ لائم پیش فرمادیاکریں لیکن اسی کو حرف آخرسمجھ کر جو اس کے مخالف ہواس کوبدعتی بنادیں یا اس کونام نہاداہلحدیث قراردیں،یہ چیزاچھی نہیں ہے کسی کو بدعت کی طرف منسوب کرنے سے