کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 344
جس میں یہ ہوکہ آپ نےکھڑاہوکرامت کواجازت دی ہےحالانکہ صحیح حدیثوں میں آتاہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑےہوکربھی پیاکرتےتھےاسی وجہ سےمحققین نےیہی کہاہےکہ کھڑےہوکرپینابھی جائز ہےگو بیٹھ کرپینابہترہےایسی اوربھی امثلہ دستیاب ہوسکتی ہیں۔ اس لیےیہ کہناکہ جہاں بھی آپ کافعل اس امرکےخلاف ہوجوآپ نےامت کودیاہےتووہ آپ کی ذات مبارک سےمخصوص ہوگاصحیح نہیں ہے۔ پھرمولانانےامام شوکانی کاتوقول نقل کردیالیکن اس سلسلہ میں اورائمہ حدیث کےاقوال نقل نہیں کئے۔ اوریہ انصاف سےبعیدہےدیکھئے، امام نووی شرح مسلم میں فرماتےہیں:
((قلت الصوات ان هاتين الركعتين فصلهما صلی اللہ علیہ وسلم بعد الوتر جالسا بيان جوازالصلوٰة بعد الوتر و بيان جوازالتنفل جالسا ولم يواظب علي ذالك_))
’’یعنی صحیح بات یہ ہےکہ آپ نے وترکےبعدبیٹھ کرنمازپڑھی ہےتاکہ معلوم ہوجائےکہ وترکے بعدبھی نفل پڑھناجائز ہےاوربیٹھ کر پڑھنابھی جائز ہے اورآپ نے اس پرہمیشگی نہیں کی۔ ‘‘
بہرحال اگرامام شوکانی نے تخصیص کا کہا ہے توامام نووی نے اس کے جوازالتنفل بعدالوترکااثبات کیا ہے اب انصاف سے بتائیں کہ کس کی بات درست ہے؟اورجوامام نووی نے کہا ہے کہ آپ نے ا س پر ’’یعنی دوگانہ وترکے بعدہی ہمیشگی نہیں کی وہ غالباًاس لیے کہ ان کے سامنے حضرت امام احمد کے مسنداورامام بیہقی کی سنن کبریٰ والی احادیث ذہن میں نہیں تھیں۔
ان کے سامنے صرف وہی حدیث یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس کےشرح میں یہ عبارت لکھی ہے، اس لیے یہ فرمایاکہ اس پر ہمیشگی نہیں کی اوریہ امام نووی نے اس لیے فرمایاکہ ان کو یہ فعل بظاہر اس حدیث کے متعارض نظرآیاجس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاتھاکہ وتر کو صلوٰۃ اللیل کےآخر میں رکھا کرو، حالانکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا کہ یہ