کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 343
تستطيع يعني الركعتين بعدالوتر_)) کثیربن مرہ اورخالدبن معدان دونوں تابعی ہیں نےفرمایاہےکہ جب تک قدرت ہووترکےبعددورکعتوں کونہ چھوڑاکرو۔پھرفرماتےہیں: ((وقال عبداللّٰه بن مساحق كل وتر ليس بعده ركعتان فهوابتر_)) (عبداللہ بن مساحق فرماتےہیں کہ جس وترکےبعددورکعتیں نہیں وہ دم کٹاہے) اس سےمعلوم ہواکہ یہ دورکعتیں کچھ الگ نہیں کہیں بلکہ وترکےساتھ ہی ہیں۔اس لیےیہ دورکعتیں وترکوقیام اللیل کےآخرمیں رکھنےکےمنافی بھی نہیں ہیں،آگےپھرامام محمدبن نصرفرماتےہیں: ((وقال عياض بن عبداللّٰه رايت أبا سلمة بن عبدالرحمان اوترثم صلي ركعتين في المسجد_)) (عیاض بن عبداللہ فرماتےہیں کہ میں نےابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کودیکھاکہ وترکےبعدمسجدمیں ہی دورکعت اداکیں(یہ ابوسلمہ وہی بزرگ ہیں جوحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسےحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےقیام اللیل کی گیارہ رکعات کےراوی ہیں۔) بہرکیف خیرالقرون میں اورخودصحابہ میں سےبھی وترکےبعددورکعت پڑھنےکاثبوت ملتاہے۔ لہٰذااس کوبدعت کےحدودمیں داخل کرناخصوصاًجب کہ ان کایہ فعل حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےموافق ہو۔ حضرت مولاناحصاروی صاحب کی ہی جرات ہےباقی مولاناکایہ فرماناکہ’’یہ فعل مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےخاص ہےکیونکہ اگرآپ امت کوایک امرفرمائیں اورخوداس سےمخالف کوئی عمل کریں تویہ آپ کی ذات مبارک سےمخصوص ہوگاتویہ کلیتًہ صحیح نہیں ہےبلکہ اس میں تفصیل ہے۔ مثلاًحدیث میں کھڑاہوکرپینےسےمنع آیاہےاورایسی کوئی حدیث نظرسےنہیں گزری