کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 342
النبي صلي اللّٰه عليه وسلم كان يصلي بعدالوترركعتين وهوجالس يقرأ في الركعة الاولٰي بام القرآن و إِذَا زُلْزِلَتِ وفي الثانيه قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ.)) [1] اس حدیث کی سندمیں اورسب راوی ثقہ ہیں لیکن بقیہ سخت مدلس ہیں اورسماع کی تصریح نہیں کی اورعتبہ بن ابی حکیم کوصدوق ہےلیکن کثیرالخطاءہےاورقتادہ بھی ثقہ ہےلیکن وہ بھی مدلس ہےلیکن ان وجوہ سےسندمیں خفیف ضعف پیداہوتاہے، اس لیےاعتبارواستشہادمیں کوئی قباحت نہیں یعنی جب کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نےصحیح یاحسن لذاتہ سندسےحدیث ثابت ہوگئی تویہ حدیث جوکہ تھوڑی ضعیف ہےاس کی مؤیدبن جائےگی اوراس کوشواہدکی حیثیت سےذکرکرنےمیں کوئی قباحت نہیں۔ بہرکیف اس حدیث سےبھی بخوبی معلوم ہوجاتاہےکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وترکےبعدہمیشہ بیٹھ کردوگانہ ادافرماتےتھےپہلی رکعت میں إِذَا زُلْزِلَتِاوردوسری میںقُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَپڑھاکرتے تھے، جب ایک فعل جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےاسوۂ حسنہ سےثابت ہوگیاتواس کےاتباع کی بدعت کہنااوراس کےمتبع کونام نہاداہلحدیث کہنازبردستی اورسینہ زوری ہےیہ بھی صحیح نہیں کہ سلف میں سےکوئی وترکےبعددورکعت نہیں پڑھاکرتےتھےبلکہ امام محمدبن نصرنےقیام اللیل میں لکھاہےکہ: ((وكان سعدبن ابي وقاص رضي اللّٰه عنه يوترثم يصلي علي اثرالوترمكانه_)) یعنی حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وترکےبعداسی جگہ پرنمازپڑھاکرتےتھےاسی طرح لکھاہےکہ’’وكان الحسن يامربسجدتين بعدالوتر‘‘ یعنی حضرت حسن بصری وترکےبعددورکعت پڑھنےکاامرفرمایاکرتےتھےاورلکھتےہیں: ((وقال كثيربن مرةوخالدبن معدان لا تدعهما و انت
[1] البيهقي‘كتاب الصلوٰة‘باب في الركعتين بعدالوتر‘جلد٣‘صفحه٣٣_