کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 341
((كمالايخفي علي ماهرالاصول.)) اورامام احمد کی مسند احادیث کے ان کتب میں سے ہے جن کی احادیث سے اصلااحتجاج کیاجاسکتا ہے کیونکہ وہ طبقہ ثانیہ میں سے ہیں’’كمايشيراليه كلام المحدث الدهلوي في حجة اللّٰه البالغه‘‘خلاصہ كلام کہ سنداً یہ حدیث بالکل بےغبارہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وترکے بعددورکعت بیٹھ کرپڑھا کرتے تھے اوران دورکعتوں میں سورۃ إِذَا زُلْزِلَتِ اورقُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَپڑھاکرتے تھےاوریہ حدیث ابن ماجہ والی حدیث کی مؤیدبھی ہے کیونکہ اس میں بھی رکعتین خفیفتین پڑھنے کا ذکر ہے۔ اوراس حدیث میں بھی ’’كان يصلي‘‘كے الفاظ ہیں جو دوام یا کثرت پر دال ہیں دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے ہے جس سے ظن غالب یہی ہوتاہےکہ یہ دورکعتیں عشاء کے بعد وترکے بعدآپ پڑھاکرتے تھے،کیونکہ تہجد توآپ اپنے گھرمیں ہی پڑھا کرتے تھے’’فتأمل‘‘۔ علاوہ ازیں حدیث کے الفاظ میں’’كان يصلي ركعتين بعدالوتر‘‘اوریہ الفاظ عام ہیں لہٰذا ان کو بلادلیل صرف تہجدکےوقت کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح نہیں، کیونکہ جب احادیث صحیحہ سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے تینوں وقتوں اول، اوسط، آخرمیں وترپڑھنا ثابت ہے اوراس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ وترکےبعددورکعتیں بیٹھ کرپڑھتے تھے توان دورکعتوں کا آپ سےپڑھنے کا ثبوت مل گیا اوروہ بھی دواماً لہٰذا یہ کہنا کہ ان دورکعتوں کاوترکے بعدبیٹھ کرپرھنا بے ثبوت ہے قطعاً صحیح نہیں ۔ (٣):۔۔۔۔امام بیہقی سنن کبریٰ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث لائے ہیں: (( حدثناابوالحسن محمدبن الحسين بن داؤد العلوي املاء ثنا ابونصرمحمدبن حمدويه بن سهل المروزي ثناعبداللّٰه بن جمادالآملي ثنايزيدبن عبدربه ثنابقية بن الوليدعن عتبة بن ابي حكيم عن قتادة عن انس بن مالك رضي اللّٰه عنه ان