کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 340
فرماتے ہیں کہ ’’صدوق يخطئي‘‘یعنی وہ سچے ہیں اورخطابھی کرجاتے ہیں۔
یخطی کالفظ راوی کی عدالت میں قادح نہیں ہے اورنہ اس کو احتجاج کے رتبے سےگرادیتا ہے کیونکہ خطااوروہم سے کوئی راوی معصوم نہیں ہے الاماشاءاللہ یہی وجہ ہے کہ رجال کی کتب میں بہت سے ایسے رواۃ ملتے ہیں جن کے متعلق ان کی کتب میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ’’صدوق يخطئي‘‘یا’’صدوق يهم‘‘يا’’صدوق له اوهام‘‘ حالانکہ وہ صحیحین کےرواہ میں سے ہوتے ہیں۔
مثلاً حسن بن ذکوان بخاری کے رجال میں سے ہیں لیکن تقریب میں لکھا ہے کہ’’صدوق يخطئي‘‘اسی طرح حرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ جو بخاری اورمسلم کے رواۃ میں سے ہے ان کے متعلق حافظ ابن حجرؒتقریب میں تحریر فرماتے ہیں
’’صدوق يهم‘‘اسی طرح سعید بن یحییٰ بن سعیدبن ابان الاموی یہ راوی بھی شیخین کے رواۃ میں سے ہیں اس کےمتعلق حافظ صاحب تقریب میں فرماتے ہیں کہ ثقہ’’ربمااخطا‘‘ بہرکیف اوربھی رواۃ ہیں جواگرچہ شیخین کے رواۃ میں سے ہیں لیکن ان کے متعلق رجال کی کتب میں یہی لکھاہوتا ہےکہ يخطئي له’اوهام اورربمااخطأ لیکن ان الفاظ سے وہ حجیت سےگرنہیں جاتے کیونکہ جہاں ان سے کچھ وہم ہوا ہے یا خطا ہوگئی ہے وہاں ائمہ حدیث اورحفاظ فن نے تنبیہ کردی ہے لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ جہاں پر بھی وہ راوی دیکھیں توکہیں کہ یہاں بھی اس نےخطاکی ہوگی۔
مقصدیہ ہے کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق ائمہ حدیث میں سے کسی نے چونکہ یہ نہیں فرمایاکہ اس نے یہاں بھی خطا کی ہے ۔ اس لیے اس کی روایت مقبول ہوگی۔ پھر آخر میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ ہیں جو صحابی ہیں۔خلاصہ کلام کہ اس حدیث کی سند کے سب رواۃ ثقات ہیں اوران میں کوئی راوی مدلس بھی نہیں ہے۔
لہٰذا یہ علت بھی نہیں ہے بلکہ یہ روایت دوسری حدیث سےجوآگے آرہی ہے تقویت پکڑکرصحیح لغیرہ بن جائے گی: