کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 338
بعض مرتبہ اتنے روزے رکھا کرتے تھےکہ خیال ہوتاکہ اب افطارہی نہیں کریں گے اوربعض مرتبہ اتنے دن افطارکرتے تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ اب ر وزہ نہیں رکھیں گے۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ روزے بھی بہت دن تک رکھا کرتے تھے اورپھر افطاربھی کافی عرصہ تک ہواکرتے تھے یعنی دونوں فعل مبارک اکثری ہوگئے۔ اسی طرح کبھی آپ کافی عرصہ تک ہلکی رکعتیں ہی پڑھتے رہتے جس میں سورہ ﴿إِذَا زُلْزِلَتِ ٱلْأَرْ‌ضُ زِلْزَالَهَا﴾اور﴿قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْكَـٰفِرُ‌ونَ﴾ پڑھاکرتےاورکبھی بہت دن تک وہ دورکعتیں لمبی بھی کرتےرہتے تھے۔اس میں کوئی تعارض وتخالف نہیں ہے۔اورمولاناصاحب نے یہ بھی عجیب بات تحریرفرمائی ہے کہ’’جیسے یہ ترکیب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سےمخصوص ہے‘‘کیونکہ مسلم وغیرہ میں یہ وضاحت ہے کہ اس طرح آپ اس زمانے میں کرتے تھے جب آپ بڑی عمرکے ہوگئے۔ ((فلما اسن وغيرها.)) کےالفاظ آتے ہیں۔ لہٰذا یہ ترکیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے’’من يدعي فعليه البيان بالبرهان‘‘ جوبڑی عمروالاہوجائے یابیماری وغیرہ کی وجہ سے چاہتا ہےکہ میں رات کے نوافل میں قرات بھی لمبی کروں اورنوافل کو بھی ترک نہ کروں وہ اسی ترکیب پر عمل کرسکتا ہے۔ یعنی شروع توقرأة بیٹھ کرکرےلیکن جب قرأۃ ختم ہونے کو آئے تواٹھ کررکوع کرےآخراس میں آپ کے اتباع سےکونسی چیز مانع ہے؟اوراس ترکیب کا آپ کے ساتھ مخصوص ہونا کس دلیل کی بناءپرہے؟خیریہ توضمنی چیز تھی اصل مقصد یہ تھا کہ اس حدیث سے معلوم ہواکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وترکےبعدبیٹھ کررکعتیں خفیفتین پڑھتے تھے، لہٰذا وترکے بعددوگانہ بیٹھ کرپڑھنا مسنون ہوا اور جومسنون ومشروع سمجھ کرپڑھتا ہے وہ نام نہاداہلحدیث یابدعتی وغیرہ نہیں ہے بلکہ متبع سنت ہے رہا خصوصیت کا تواس کے متعلق بعد میں عرض کروں گا۔ (٢):۔۔۔۔مسند احمد میں یہ حدیث ہے: ((حدثناعبداللّٰه حدثني ابي ثناعبدالصمدحدثني ثنا