کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 309
زبان ہےدنیاوالوں کے کتنے ہی کام اس سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا وہ محض دنیاوی امورکی خاطراس زبان کی تعلیم دیتے ہیں۔ لہٰذا ہم پاکستانیوں کو دینی مدارس میں اس زبان کی کیا ضرورت ہے۔ حالانکہ محض دنیاوی نقطہ نظرسے ہمارے لیے عربی سے زیادہ انگریزی زبان سیکھنے کی ضرورت ہے جو دفتری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کا پوراکاروباراسی زبان میں ہے۔پھرکیوں ہم اس طرح آٹھ سال مدارس میں ایسے علوم کے حصول کے لیے فضول ضائع کریں جب کہ ہماری دنیاوی ضرورتیں اس سے وابستہ بھی نہیں ہیں،حالانکہ ہم سب ان علوم کو حاصل کرنے میں ثواب سمجھتے ہیں اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرب کاذریعہ اوران کی خوشنودی تصورکرتے ہیں کیونکہ یہ علوم ہمیں کتاب وسنت تک پہنچاتے ہیں۔
یہی سبب ہےکہ پوری امت ان مدارس پر صدقات وخیرات کی بارش برساتی رہتی ہےاگران امدادکرنے والوں کو یہ بتایاجائےکہ یہاں پر جوکچھ ہم پڑھاتے ہیں وہ محض زبان دانی کے لیے ہے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے توپھر کوئی ایک دانہ دینے کے لیے بھی تیارنہیں ہوگا۔کیونکہ اس صورت میں ان کو اپنی امدادسےثواب کی کوئی امیدباقی نہیں رہتی باقی فضول پیسہ کا زیاں کوئی دیوانہ ہی کرسکتا ہے ۔صاحب عقل اورحواس قائم رکھنے والاکبھی بھی یہ کام نہیں کرے گا بلکہ کہے گاکہ اس سے توبہتر ہے اسکول وکالج میں دوں تاکہ کم ازکم میری مشہوری توہویاحکومت سےکوئی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے کیا یہ سچ نہیں ہے؟
بہرحال یہ علوم اس دین ہی کی خاطر پڑھائےجاتے ہیں اوردین ہی کی خاطر ان کوضروری سمجھاجاتا ہےاوراسی لیے ہم مدارس کو قائم رکھنے کے لیے اپنی طاقت کے مطابق کوئی کسرنہیں چھوڑتے بہرحال مختصرکلام یہ کہ علوم ان لوگوں کے ہاں ضرورت کی بناپریاوسائل کی بناپربدعت نہیں ہیں بلکہ ضروری ہیں۔
(٤):......لاوڈاسپیکرکواس وقت مقلدخواہ غیرمقلدسارے اپنی مساجدمیں اذان ونمازاوراجتماعات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔حالانکہ اسی الٰہ کی بناپرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی