کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 308
یہ علم بھی بدعت نہیں ہوا۔ اول تواس کاثبوت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے صریحاً ملنابہت مشکل ہےاگرچہ نحوکی کتابوں میں اس علم کی تاریخ بیان کرتے ہویہ اقوال نقل کئے جاتے ہیں مگران کی سند کاملنانہایت مشکل ہے۔ لیکن اس کے باوجودبھی حضرات یہ بات کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ وہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی جمعہ کے دن کی پہلی اذان کوبدعت کہتے ہیں کیا سیدناعثمان رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین میں سے نہیں تھے؟ اوراس سے بڑھ کریہ بات کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فعل تمام کتب احادیث میں باسندموجودہےاورخودصحیح بخاری میں اس روایت کےآخرمیں’’وثبت الامرعلي ذالك.‘‘كے الفاظ موجود ہیں سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کا یہ فعل پورے عالم اسلام میں متفقہ طورپرثابت رہااورسبھی اس پر عامل بھی رہے ،جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اورحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں سے بھی کسی نے اس کام کو نہ بندکیا اورنہ ہی اس کو تبدیل کیا تودیکھیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کاکتنااتفاق ہے خلفائے راشدین میں سے ایک جلیل القدرصحابی ذوالنورین ذوالحرمین عشرہ مبشرہ میں سے ایک اگرکوئی کام کرتا ہےتوصحابہ اورعالم اسلام اس پر متفق ہےلیکن آج کل یہ مفتی اس پر فتویٰ جاری کرتے ہیں کہ یہ کام بدعت ہے۔ پھرعلم النحوکواگرتسلیم کیا جائے گاکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے تووہ کس طرح بدعت سےبچ سکتا ہے کیادونوں میں تمہیں کوئی تفاوت نظرنہیں آتاایسے لوگوں کو سمجھانامشکل بلکہ محال ہے۔کچھ حضرات یہ طریقہ اختیارکرتے ہیں کہ علم النحو وغیرہ جیسے علوم صرف عربی زبان سیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے یہ(في امرنا)میں داخل نہیں ہیں لہٰذا بدعت نہیں کہلائیں گے ۔ان لوگوں کے لیے یہ مثال ہے کہ اگراس طرح ہے توپھران کومدارس میں کیوں پڑھایاجاتا ہے؟محض کسی زبان کے سیکھنے کےلیے اس کی ضرورت تھی توپھراسکولزاورکالجزمیں اس کو پڑھایاجاتا جس طرح پاکستان یا دوسرے یورپی ممالک میں کچھ عربی پڑھائی جاتی ہیں۔ظاہرہے کہ وہ اس کو مذہبی زبان سمجھ کرنہیں پڑھاتے بلکہ وہ اس زبان کو سیکھنے اورسمجھنے کے طورپرپڑھاتے ہیں کہ یہ ایک عالمگیر