کتاب: فتاویٰ راشدیہ - صفحہ 307
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوپتہ نہیں تھاکہ عرب کے علاوہ عجمی لوگ بھی اسلام پرآئیں گے جن کی عربی زبان نہ ہونے کی وجہ سےاسلام کے سرچشمہ تک پہنچنے کے لیے بہرحال کچھ ذرائع کی ضرورت پڑے گی۔ پھرکیوں نہیں اللہ تعالیٰ نے اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف رہنمائی فرمائی۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾ان حضرات کے خیال کےمطابق لازمی تھاکہ اس کی طرف کوئی اشارہ کردیا جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان علموں کی طرف تصریح توکیا اشارہ بھی نہیں ہے۔لیکن ہمارے لیے کوئی مشکلات نہیں ہےکیونکہ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو پتہ تھا کہ انسان کو یہ ضروریات پیش آئیں گی اوریہ بھی پتہ تھا کہ وہ وسائل وذرائع زمانہ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بدلتے رہیں گے اوراللہ تعالیٰ نے انسان میں ایسا مادہ یاایسی قدرت رکھی ہے کہ وہ بوقت ضرورت کسی چیز کے حصول کے لیے وسائل بھی تلاش کرلیتا ہے جس طرح کہا جاتا ہے ۔ضرورت ایجادکی ماں ہے، لہٰذا ایسازمانہ ہی نہیں آیاہے کہ انسان کو کوئی ضرورت پیش ہوئی ہووہ اس کے حصول کے لیے وسائل ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہو۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتاب وسنت کے ساتھ چمٹ جانے کا حکم فرمایاہے۔باقی ان تک پہنچنے کے وسائل کے بارے میں بھی علم تھا کہ جب ان کو ضرورت پڑے گی توانسان خود ان وسائل کو تلاش کرے گااوروقت کے موافق اس کی تقاضاکوپوراکرسکے گا۔ لہٰذا ان وسائل کے لیے نص کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی یہ چیز انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ ضروری وسائل کوخودبخودحاصل کرلیتا ہے۔
اورمیری سمجھ کے مطابق یہ حقائق بھی۔﴿وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلْأَسْمَآءَ كُلَّهَا﴾اور﴿إِنِّىٓ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴾میں داخل ہیں۔یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ازل سے ہی یہ علم دےدیاتھا کہ جب بھی اس کو کوئی ضرورت پیش آئے تواس کےحصول کے لیے کس طرح راستہ ڈھونڈے’’فتدبرواوتفكروا‘‘کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ علم النحو حضرت علی رضی اللہ عنہ سےمنقول ہے لہٰذا بموجب فرمان:
((عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين.))